تفہیمِ بالِ جبریل: ابتدائی تین غزلوں کی شرح کا ایک جائزہ

شرحِ کلام اقبال کی روایت اگرچہ ابھی پختگی سے دور ہے تاہم یوسف سلیم چشتی کا دم تاحال غنیمت ہے۔ وہ اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو شاید اقبال کی شاعری...


شرحِ کلام اقبال کی روایت اگرچہ ابھی پختگی سے دور ہے تاہم یوسف سلیم چشتی کا دم تاحال غنیمت ہے۔ وہ اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو شاید اقبال کی شاعری فہم اور ذوق کی اعلیٰ سطحوں سے لاتعلق رہ جاتی اور ایک عام قاری ان کی شعری عظمت کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر ہی رہتا۔ باقی شار حین نے ا لّاماشاء اﷲ کلامِ اقبال کو ایک عام فہم پیغام بنانے سے زیادہ کچھ نہیںکیا۔ ان کی شرحیں دیکھ کر کئی غیر ضروری معلومات تو حاصل ہو جاتی ہیں لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ اقبال ایک بڑے شاعر اور تاریخ ساز مفکر تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کی تفہیمِ بالِ جبریل کا ماقبل اشاعت تذکرہ بہت سن رکھا تھا، جب چھپ کر سامنے آئی تو اس خیال سے دیکھنا شروع کیا کہ خواجہ صاحب نے شارحین اقبال کی کوتاہیوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن یہ کتاب بھی اسی روایت کا ایک تسلسل ہے۔ بالِ جبریل اقبال کی شاعری کا منتہا ہے، اس کی شرح کے مطلوبہ تقاضے اس کتاب کی اشاعت سے بھی پورے نہیں ہو سکے۔
تفہیمِ بالِ جبریلکو اگر دو حصوں میں منقسم تصور کر لیا جائے تو اس میں اغلاط اور نقائص دونوں نظر آتے ہیں اور بہت سے مشمولات مطلوبہ معیارِ شرح وتفسیر تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر محسوس ہوتے ہیں۔ اغلاط ونقائص متعدد ہیں۔ اس لیے یہ تبصرہ زیرِ نظر کتاب کے ایک جز تک محدود رہے گا اور اُس کی صورت یہ ہوگی کہ بالِ جبریل کے پہلے حصے کی غزلیات کی تفہیم شعر بہ شعر اس طرح دیکھی جائے گی کہ پہلے خواجہ کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا پھر تجزیہ کی ذیلی سرخی لگا کراس کی بنیادی نارسائی اور اس کے اسباب کی فہرست دی جائے گی او رپھر اس کے بعد تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتراس کے کہ اس عمل کاباقاعدہ آغاز کیاجائے، مناسب ہوگا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح وتفہیم کے اصول وآداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔
تفہیمِ شعر کا ایک بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ شعر میں کارفرما معنوی اور فنی تشکیل کے عمل کو سامنے لایا جائے۔ اس میں موجود معنوی تنوع کا احاطہ کیا جائے اور معانی کی درجہ بندی کرکے ان میں ایک ترجیح قائم کی جائے جو مرادات کی کثرت کو انتشار میں نہ بدلنے دے۔ مختلف الدرجات معانی کا تعین اور ان کے درمیان ایک فنی اور تخلیقی ربط کی دریافت، شارح کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظوں کی حیثیت، یعنی ان کا علامت وغیرہ ہونا طے کیا جائے تاکہ شعر کی معنویت کا جمالیاتی جوہر گرفت میں آجائے، جو یوں تو ہر طرح کے پڑھنے والے کودرکار ہے مگر شارح کے لیے تو لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ شرح بھی بے فائدہ اور بے جواز ہے جو شعر کے فنی دروبست کا تجزیہ نہیں کرتی۔ جمالیاتی مرتبہ متعین نہ ہو تو شعر کاایک سطحی سا مطلب جان لینا کوئی چیز نہیں ہے۔
تفہیمِ بالِ جبریل میں شرح وتعبیر کی یہ ذمہ داریاں بڑی حد تک نظر انداز ہوگئی ہیںاو رمعنوی تہ داری اور فنی محاسن کی طرف مطلوبہ اشارہ کرنے کی جانب توجہ نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ ان شعروں میں بھی جو معانی کے تنوع اور الفاظ کی مناسبتوں سے گویا چھلکے پڑ رہے ہیں۔

۱
اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں
’’اس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان قوم اس دور میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی سانس پھولی ہوئی ہو۔ اب اسے تازہ دم ہو کر جدوجہد کے لیے نکلنا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں: اے ملتِ اسلامیہ کے فرزندو! اٹھو اور خورشید تک پہنچنے کی تیاری کرو۔ تمھاری منزل ستاروں سے بھی بلند ہے۔ دنیا ہی میں تھک ہار کر نہ بیٹھ جائو۔بلندیوں کے سفر کے لیے تیار ہوجائو۔‘‘ ص۔ ۱

تجزیہ:    اجنبی اسلوب، اکہری تفہیم، شعر فہمی کے اصول سے بے توجہی۔
تبصرہ:    اس شعر کا شمار اقبال کے بڑے شعروں میں ہوتا ہے ۔ بڑا شعر فن اور معنی دونوں اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ شرح میں فن کا تذکرہ نہیں،معنی البتہ بتائے گئے ہیں۔ مگر ان کی سطح اتنی عام ہے کہ یہ شعر اقبال کے کمزور ترین اشعار کے برابر آگیا ہے۔ اور پھریہ ناقابلِ التفات مطلب جس طرح بیان ہوا ہے، رہی سہی کسر اس سے پوری ہوگئی ہے۔
اس شعر میں ’خورشید‘، ’خورشید کاسامان سفر‘، ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘کی معنوی حیثیت اور علامتی پیچیدگی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر یہ شعر ادنیٰ درجے پربھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ صرف یہی نہیں، ’سامانِ سفر تازہ کرنا‘ اور ’نفسِ سوختہ تازہ کرنا‘ ابھی احساس، تخیل اور معنی کی کئی سطحوں کو محیط ہیں اور ایک بالکل نیا لسانیاتی اور جمالیاتی تناظر وضع کرتے ہیں۔ فعل کو علامت کے قریب قریب پہنچا دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سے آفاقیت اور شکوہ پیداہوتا ہے، جس کے زور سے بڑے معانی بھی احساس اور جذبے کی پکڑ سے باہرنہیں رہتے۔ اسی طرح ’اُٹھ‘ کا مخاطب غیر متعین ہونے کی وجہ سے ایک مرتکز پھیلائو پیدا ہوگیا ہے جواقبال کے تصورِانسان او رتصورِ مسلمان کوپوری طرح سموئے ہوئے ہے۔ پھیلائو، انسان کا احاطہ کرتا ہے اور ارتکاز، مسلمان کا۔ یعنی کہ مسلمانی جوہر ہے اور انسانیت اس کا عرض۔ اس ایک فنّی کمال نے دیکھیے فکرومعنی کی بلند تر سطح پربھی کیسا دقیق تصرف کر دکھایا۔ ہم آسانی سے سمجھ لیتے ہیں یاسمجھ سکتے ہیں کہ اس تقدیری آہنگ رکھنے والے امر کا سامع انسان ہے اور مخاطب،مسلمان۔
اِس طرح شعر ایک دوسرے مطلب کا بھی واضح امکان،احتمال اور گنجائش رکھتا ہے۔ ’خورشید کا سامانِ سفر‘ خورشید کا اپنا سامانِ سفر بھی ہو سکتاہے۔ دریں معنی کہ خورشید کو اس راستے پر اور اس سمت میں چلائیں جس پر چلنے کی فی الحال اس میں سکت نہیں ہے یا جس پر چلنا اسے یاد نہیں رہا یا اس کے پاس اس سفر کا سامان نہیں ہے۔ خورشید کاسامانِ سفر تازہ ہوگیا تو صبح وشام کی درماندگی،مردنی اور یکسانی کا خاتمہ خود بخود ہو جائے گا اور کائنات ہماری مراد کے تابع ہو کر خود اپنی غایتِ تخلیق کو پہنچ جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کا نکالا ہوا مطلب غلط نہیں ہے لیکن اِس مطلب تک پہنچنے کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو قاری کو اتنے بلند پایہ شعر کی تحسین کے قابل بنا دیتا۔ تفہیم کا کام بس اتنا نہیں ہے کہ کسی شعر کو یک سطری بیان بنا کر پیش کردیا جائے یا اس کی نثر کرکے طالب علموں کو فراہم کر دی جائے۔ شارح کی ذمہ داری ہے کہ شعر میں کھلنے اور پھیلنے کی جتنی گنجائش پوشیدہ ہے اسے عمل میں لاکر دکھائے تاکہ پڑھنے والا شعری مفاہیم کی جمالیاتی بناوٹ سے واقف ہو جائے اور اس شعر کا تخلیقی مرتبہ بھی پہچان لے۔
خواجہ صاحب اگر ’اُٹھ‘ ہی کو کھول دیتے تو شعر کی بلندیوں کا کچھ نہیں تو ایک عکس ہی میسر آجاتا۔ مگر یہاں بھی وہ اثر لکھنوی کے ایک سطحی دعوے تک مار کرکے مطمئن ہوگئے۔ اقبال نے یہ عام سا کلمہ جس آہنگ کے ساتھ اور جس فضا میں کہا ہے، اس سے مخاطب کے باطن میں وہ قدیم گونج بیدار ہو جاتی ہے جو حرفِ کُن کی سماعت سے یا عیسیٰ علیہ السلام کی زبانِ مسیحائی سے ’قم‘ کا امر سن کر پیدا ہوئی ہوگی۔
کم سطحی کے اس نقص کے علاوہ اس شعر کی شرح میں ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘ کو مسلمانوں کی پھولی ہوئی سانس سمجھا گیاہے۔ ’’مسلمان قوم اس دور میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی سانس پھولی ہوئی ہو۔‘‘ اسلوب کی سخت ناہمواری سے قطعِ نظر یہ پوری بات غلط ہے۔ شعر میں اس کاکوئی قرینہ نہیں پایا جاتا۔ ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘ سے ایک عمومی سطح پر یہ مراد ہے کہ وقت میں سے وہ جوہرِ حرکت سلب ہوچلاہے جسے انسان تخلیق کرتا ہے، یعنی تاریخ کی ارتقائی پیش قدمی کا فقدان۔ باقی اس شعر کی جمالیاتی معنویت اتنی کثیرالاطراف ہے کہ اس کا احاطہ تو بہرحال ناممکن ہے البتہ کچھ اشارات قائم کیے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے یہ انتہائی پیچیدہ مگر معنی خیز شعر کسی حد تک گرفت میں آسکتاہے۔
۱۔ ’اُٹھ‘
۱:۱    تو لیٹا ہوا ہے، اٹھ جا!
۲ : ۱    تو پائوں توڑکربیٹھ رہاہے، کھڑاہو جا!
۳ : ۱    تو مایوس ہو چکا ہے، ہمت کر اور نئے سرے سے گرمِ عمل ہو جا!
۴ : ۱    تو سو گیاہے، جاگ جا!
۵ : ۱    تو اپنے آپ کوبھولا ہوا ہے، ہوش میں آ!
۶ : ۱    توزندگی کی پست سطحوں میں مبتلا ہے، ان گراوٹوں سے بلندہوجا!
۷ : ۱    تو بہت بلندی سے گرا ہے، ماتم میں وقت ضائع مت کر، اٹھ جا!
۸ : ۱    تو مر چکاہے، پھر سے جی اٹھ!
۹ : ۱    تو خلیفۃ اﷲ ہے/ مقصودِ کائنات ہے/ خلاصۂ ہستی ہے/ مظہرِ خداہے! یوں بے کار مت
    بیٹھ، جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے اسے شروع کردے۔
۱۰ : ۱    کائنات اپنی تکمیل اور بقا کے لیے تیری منتظرہے۔اٹھ اور اسے مکمل اورزندہ کردے!
۱۱ : ۱    تیرے بیٹھے رہنے سے کارخانۂ ہستی ویران پڑاہے، اٹھ اور اس کی ویرانی کو ختم کر دے!
۲۔ ’خورشید‘
۱ : ۲    نظامِ کائنات کامرکز
۲ : ۲    وقت کی اصل اور مکان کا منتہا
۳ : ۲    لوحِ تقدیر
۴ : ۲    حقیقتِ حیات، سرچشمۂ زندگی
۵ : ۲    عروج کی آخری حد، رسائی کا انتہائی درجہ
۶ : ۲    ناممکن الحصول بلندی
۳۔ ’خورشید کا سامانِ سفر‘
۱ : ۳    وہ سامان جو انسان/ مسلمان کوخورشیدتک پہنچنے کے لیے درکار ہے۔
۲ : ۳    وہ سامان جو خورشید کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے درکارہے۔
۴۔ ’سامان … تازہ کریں‘
۱ : ۴    سامان ہماری تحویل میں ہے، اسے ٹھیک سے یک جا کرکے کام میں لائیں۔
۲ : ۴    سامانِ سفر موجودہے۔ سفرکرناباقی ہے۔
۳ : ۴    پہلے اسی سفر کے لیے جو زادِ راہ تیارکیا تھا، وہی اس بار بھی فراہم کرلیں۔
۴ : ۴    اس سفر کی روایت کو دوبارہ زندہ کریں اور اس کے اصول وآداب کونئے سرے سے وضع کریں۔
۵۔ ’نَفَسِ سوختۂ شام وسحر‘
۱ : ۵    صبح وشام کی پژمردگی/ بے حرکتی/ تھکن
۲ : ۵    زندگی کی مُردنی / مایوسی /ناکامی
۳ : ۵    وقت کاٹھہر جانا
۴ : ۵    تاریخ کا نقطۂ زوال پر جامد ہو جانا
۵ : ۵    ایک لگے بندھے معمول پرچل چل کر کائنات کانڈھال ہو جانا
۶ : ۵    دنیا کا اپنے مقصود اور کمال تک پہنچنے سے قاصر اور مایوس ہو جانا
۷ : ۵    عالم گیر ناامیدی / تھکن / بے مقصدی / لایعنیت / جبر
۶۔’ نَفَس … تازہ کریں‘
۱ : ۶    احیائے ملت کریں۔
۲ : ۶    نظامِ ہستی کو اُس کی اصل پر استوار کرکے از سرِ نو چلائیں۔
۳ : ۶    کائنات کو تسخیر کرکے اسے اس کی مراد کو پہنچا دیں۔
۴ : ۶    کائنات میں انسان کی مرکزیت عملاً بحال کریں۔
۵ : ۶    وقت کواپنی مراد پر چلائیں۔
۶ : ۶    انسان اور کائنات کی مشترکہ افسردگی کاازالہ کریں۔
اس شعر کی تشریح وتفہیم اگر ان اشارات کو پوری طرح جامع نہیں ہے توناقص ہے۔

۲
پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
’’اقبال کے شعر کا مطلب یہ ہے کہ پھول کی پتی سے ہیرے کو اندر تک کاٹ ڈالنا اگرچہ ناممکن کام ہے، یہ ناممکن بھی ممکن ہو سکتاہے البتہ کسی بے وقوف شخص پر نرم و نازک یعنی لطیف بات کسی صورت اثر نہیں کرسکتی۔‘‘  ص۔ ۱، ۲

تجزیہ:    مطلب نامکمل، اسلوب ناتراشیدہ
تبصرہ :    دوسرے مصرعے میں مگر کو محذوف مان کریہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے لیکن بھرتری ہری کے متعلقہ اشلوک کی روشنی میں اس مطلب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شعر کی مراد کو پہنچنے کے لیے پہلے مصرعے میں ’پھول کی پتی سے‘ کے بعد ’کبھی‘ یا ’کہیں‘ کو محذوف قرار دینا پڑے گا۔ یعنی پھول کی پتی سے بھی کہیں ہیرے کا جگر کاٹا جاسکتاہے۔ اس شعر کی مفہومی ترتیب مصرعوں کی ترتیب کے برعکس ہے۔ مردِناداں پر نرم ونازک کلام بے اثر رہتاہے کیوں کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹ سکتا۔
آگے چل کر اس شعر کا خلاصہ کیا گیاہے: ’’مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ میری شاعری کلامِ نرم ونازک پر مشتمل ہے ’لیکن بے سمجھ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔‘‘
اِس اسلوب میں بیان ہونے والا یہ خلاصہ ناقص ہے۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم بھی نسبتاً زیادہ قطعیت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔  میری شاعری کلامِ نرم ونازک نہیں ہے کیوں کہ میرے مخاطب وہ نادان لوگ ہیں جن پر ایسا کلام اثر نہیںکرتا۔
یہ خلاصہ اقبال کے تصورِ شعر سے بھی مناسبت رکھتا ہے جو اقبال نے گویا عرفی کی اس ہدایت کی اتباع میںتشکیل دیا تھا:
حدی را تیز ترمی خواں چومحمل را گراں بینی
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی

۳
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں
’’اقبال کہتے ہیں کہ میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار براہِ راست کرنا چاہتا ہوں مگر چونکہ مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ممکن نہیں اس لیے میںدیدارِ خداوندی سے محروم رہتا ہوں اورعالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے فریاد کرنے لگ جاتا ہوں۔ یہ فریاد بلند ہو کر خدا کے حریم یعنی عرش تک جاپہنچتی ہے۔ عرش تک جاتے ہوئے اس فریاد کے راستے میں صفات کے بنائے ہوئے بت آتے ہیں جو فریاد کو عرش تک نہیں جانے دینا چاہتے (یعنی ہم نے خدا کی صفات کے بُت اپنے ذہنوں میں بنا رکھے ہیں یہ صفات کے بُت خدا کی راہِ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں) مگر میری خواہش کے نتیجے میں بلند کی جانے والی فریاد میں اتنی شدت ہے کہ وہ صفات کے ان بتوں کو روندتی ہوئی عرش تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ صفات کے بت پریشان ہو کر شور مچانے لگ جاتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں کہ اس شخص سے خدا کی پناہ جو ہمیں راستے سے ہٹا کربراہِ راست عرش تک جاپہنچاہے۔
انسانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ ذاتِ خداوندی کو براہِ راست دیکھ سکیں۔ حضرت موسیٰؑ کا کوہِ طور پر رب اَرنی کہنا بھی اسی خواہش کا اظہار تھا مگر آواز آئی، لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ سکتا)۔ جب خدا کی تجلّی کا پر تونازل ہوا تو موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ گویا مادّی آنکھوں سے خدا کودیکھنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار کیا گیاہے۔ مگر اشارۃً یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ اس خواہش میں کامیابی ممکن نہیں۔میں خواہ کتنا ہی شور مچائوں دیدارِ خداوندی میری قسمت میں نہیں، البتہ جن لوگوں نے صفات کے ان بتوں کو خدا سمجھ رکھاہے، ان کے بتکدے میری خواہش کی شدت سے مسمار ہو رہے ہیں، اس لیے وہ خدا سے پناہ مانگنے لگ گئے ہیں۔
اس شعر میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو اقبال اپنے اس مشہور شعر میںبہت پہلے کہ چکے تھے:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
فرق یہ ہے کہ زیرِ نظر شعر میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے کہ میری اس خواہش سے اپنے ذہنوں میں صفات کے بتکدے بنانے والے لوگ خواہ مخواہ پریشان ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵،۶

تجزیہ:    غیر معیاری اسلوب، تفہیم عامیانہ اور یک سطحی
تبصرہ:    یہ شرح غلط اور سطحی ہے۔ فاضل شارح نے اس انتہائی کامل المعانی شعر کی بنیادی اصطلاحات سے کیا مفاہیم اخذ کیے ہیں!
شوق:         خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش
نوائے شوق:  اس خواہش کا اظہار، عالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے بلند کی جانے والی فریاد۔
حریمِ ذات:    خدا کا عرش، خدا کے رہنے کی جگہ
بت کدۂ صفات: انسانوں کے ذہن میں بنے ہوئے صفاتِ خداوندی کے بت جو خدا کی براہ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔
یہ تمام مطالب ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں نقل کیے گئے ہیں۔ ان کی درست شرح یہ ہے:
 ’نوائے شوق‘
۱:     عاشق کی پکار جس سے ہجرکا اٹل دکھ اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یک جا ہوگئی ہو۔
۲:     اس عاشق کی فریاد جو:
    ۱ : ۲ غلبۂ حال کی وجہ سے وصل کا ناممکن ہونا فراموش کردے۔
    ۲ : ۲ صفات کا پردہ اٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزومند ہو۔
    ۳ : ۲ عشق کے ان لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو، جن کا ہدف ذاتِ الہیہ ہے،
    ماورائے صفات ذات۔
    ۴ : ۲ ذاتِ عبد کو ذاتِ معبود سے واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز باقی اوربرقرار رہے۔
۳:    عاشق کے پورے وجود کا اظہار محبوب کے حضور میں۔
۴:    صدائے عشق جس کی رسائی حریمِ ذات تک ہے۔
حریمِ ذات:
لامکاں، ذاتِ الہیہ کا مکان جوجہات سے پاک ہے اور صفات سے ماورا۔
بت کدۂ صفات:
بت کدہ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت، اعتبار نے حقیقت، باطن نے ظاہر، او رصورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو۔ یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے وہ خود مقصود بن گیا ہو۔
بت کدۂ صفات کامطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں مگر مقصودِ حقیقی ذات ہی ہے جو تعین اور ظہورکو قبول نہیں کرتی۔ اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھنا گویا بت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم ہوتا ہے کہ چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، لہٰذا قدرت، سمع اور بصر بھی معبود ہیں۔

۴
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
’’میرے تخیلات اتنے بلند ہیں کہ وہ حوروں اور فرشتوں کو قید کر لیتے ہیں یعنی میں جب چاہتا ہوں اپنے زورِ تخیل سے حوروں اور فرشتوں کو اپنے سامنے کھینچ لاتا ہوں۔ دوسرے مصرعے میں تخیل کی بلندی کی مزید شان یہ دکھائی ہے کہ میرا تخیل خدا کے جلووں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ گویا خدا کی تجلیات میں داخل اندازی کر ڈالتا ہے۔ خدا کی تجلّی کو برداشت کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خواہ میں مادی آنکھوں سے خدا کی تجلّی کو نہ دیکھ پائوں، تاہم زورِ تخیل سے اس کے جلوے ضرور دیکھ لیتاہوں۔
اقبال کی یہ احتیاط قابلِ داد ہے کہ انھوں نے مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘

تجزیہ:    غیر موزوں اسلوب، عامیانہ تفہیم، بعض ضروری علوم سے بے توجہی
تبصرہ:    اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔
تخیلات:    تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔
نگاہ:    وہ نظر جو:
۱۔    حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔
۲۔    ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔
۳۔    غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی
    ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔
۴۔    کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی
    طالب ہے۔
تجلیات:
۱۔    تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی
۲۔    صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔
۳۔    شانِ ربوبیت کا اظہار
۴۔    ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔
ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔

۵
گرچہ ہے میری جستجو دیر وحرم کی نقش بند
میری فغاں سے رست خیز کعبہ و سومنات میں
’’انسان ہمیشہ خدا کی تلاش میں رہا اور اس تلاش کے باوجود خدا نہ مل سکا تو اس نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق مختلف عبادت گاہیں (دیر وحرم) بنائیں کہ شاید ان میں خدا مل جائے لیکن وہاں بھی جب خدا کی تجلّی نظر نہ آئی تو نامطمئن ہو کر انسان نے خدا کے حضور فریاد کی اور اسے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن عبادت گاہوں کے متولی (یعنی کعبہ وسومنات کے اربابِ اختیار) انسانوں کی اس خواہش کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوںنے انسانوں کو عبادت گاہوںتک محدود کرنا چاہا اور خداتک براہِ راست رسائی چاہنے والوں کے خلاف ہنگامہ کھڑاکر دیا۔‘‘ ص۔ ۶،۷

تجزیہ:    غیرموزوں اسلوب، غلط اور عامیانہ تشریح، تصوف کی علمیات سے بے توجہی
تبصرہ:     اس شرح سے مندرجہ ذیل نکات برآمد ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب غور فرما لیں کہ کیا وہ ان نتائج کو قبول کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
۱۔    انسان خدا کی تلاش میں ناکام ہوگیا تو مذاہب اختراع کیے گئے۔
۲۔    وہ مذاہب بھی خدا تک پہنچانے میں ناکام رہے۔
۳۔    انبیا کے لائے ہوئے دین سے مایوس ہو کر انسان نے براہِ راست اﷲ سے فریاد کی کہ
    وہ خود کو اس کی آنکھوں پرمنکشف کردے۔
۴۔    عبادت گاہوں کے متولی اس خواہش کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوں نے انسانوں کو جبراً
    اپنے اپنے دین کے نظامِ عبادات میں محدود رکھنا چاہا اور خدا تک براہِ راست رسائی
     چاہنے والوں یعنی (دین، کتاب اور نبی کا انکار کرنے والوں) کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا۔
اس میں بھی وہی قصہ ہے۔ شعر کے کلیدی کلمات کو موردِ توجہ نہیں سمجھاگیا۔ ’دیر وحرم‘ اصطلاح میں ظہورِحق کے دو اصول ہیں جو کثرت ووحدت اور تشبیہ وتنزیہ پر دلالت کرتے ہیں۔ ’دیر‘ کا تعلق صفات سے ہے اور ’حرم‘ کا ذات سے۔ دیر وحرم، کعبہ وسومنات یوں تو ایک ہیں مگر اس شعر کی حد تک ان کے درمیان اصل وفرع کی نسبت کار فرما ہے۔ ’دیروحرم‘ اصل ہیں اور ’کعبہ وسومنات‘ ان کی فرع۔ اسی طرح ’نقش بند‘ خالق وصانع کے مفہوم میں نہیں استعمال ہوا، بلکہ اس سے مراد ہے اپنی سہولت کے لیے حقیقتِ محض کے تعینات کا تصور باندھنے والا اور حقیقت کو ازروئے اعتبار صورت میں ڈھالنے والا۔بالفاظِ دیگر وحدت وکثرت اور تنزیہ وتشبیہ کے تصورات کو عمل میں لانے والا۔ ’نقش بند‘ کو خالق وصانع سمجھنے سے یہ لازم آئے گا کہ خانہ کعبہ اﷲ کے حکم پر نہیں بلکہ خدا جوئی کے فطری داعیے کے دبائو پر تعمیر کیاگیا تھا۔ اسی طرح ’فغاں‘ کا لفظ بھی اس شعر میں اہم ہے۔ یہ ہجر اور ناکامی کے درد وغم کاوہ اظہار ہے جووصل سے مایوس ہو کر محبوب کو سنانے کے لیے کیا جائے۔ ’رست خیز‘ بھی شعر کی معنویت کے تعین میں ایک ضروری کردار رکھتا ہے۔ یہ ہنگامۂ قیامت ہے جہاں حقیقت، صورت کے تعینات کو فنا کرکے اپنا اظہار کرے گی۔ ظاہری کعبہ وسومنات چونکہ حقیقت کے لیے صوری تعینات کادرجہ رکھتے ہیں لہٰذا حقیقت سے براہِ راست نسبت کاقیام یا اس کاامکان ان میں تنزل کا سبب بن سکتاہے، یعنی صورت کی گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ یہاں صورت کوئی منفی مفہوم نہیں رکھتی، لہٰذا کعبہ وسومنات میں کوئی منفی پن دیکھنا درست نہ ہوگا۔ جوامر حقیقت کی صحیح اور محکم نسبت پر استوار ہو اور حقیقت تک رسائی کا قطعی وسیلہ ہو اس میں منفیت کا اثبات غلطی ہے۔

۶
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
’’میں اپنی زندگی میں ہمیشہ دو متضاد کیفیات سے دوچاررہتاہوں۔کبھی تو میری نگاہیں اتنی تیز ہو جاتی ہیں کہ وہ کائنات کے تمام اسرار ورموز منکشف کر دیتی ہیں او رکبھی یہی نگاہیں اپنی ہی ذات کے پیدا کردہ شکوک وشبہات میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ یعنی میرے معمولی وہم وگمان بھی مجھے پریشان کر دیتے ہیں۔
اقبال کائنات وحیات کے مسائل کے بارے میں بصیرت سے بہرہ ور تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا ہے کہ انسان کتنا ہی صاحب نظر ہو، بلند وپست سے گزرتا رہتا ہے۔ کبھی بلندی خیال کے عروج پر ہوتاہے اور کبھی معمولی سا وسوسہ اور خوف بھی اس پر غلبہ پالیتاہے۔
شاعری کی تشریح میں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ’میں‘ یا ’میرے‘ کے الفاظ کے ذریعے جوکچھ کہا گیا ہے وہ لازماً شاعر اپنے بارے میں کہتاہے۔ بعض اوقات ’میں‘ انسانوں کی ایک علامت ہوتا ہے۔ اس صورت میں شعر کامطلب یہ ہوگا کہ بڑے بڑے صاحبِ بصیرت لوگ کبھی تو پیچیدہ مسائل کی گتھیاں فوراً سلجھا لیتے ہیں اور کبھی معمولی مسائل کی تفہیم سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس بات کو سعدی نے گلستان میں ایک درویش کی زبان سے یوں بیان کیاہے:
گہے برطارمِ اعلیٰ نشینم
گہے بر پُشت پائے خود نہ بینم
(ترجمہ: کبھی میں بلند مقام پرفائز ہوتا ہوں اورکبھی اپنے پائوں کی ایڑی کے پیچھے بھی نہیں دیکھ سکتا)۔‘‘

تجزیہ:    عامیانہ تفہیم، نامکمل تشریح
تبصرہ:    شرح کا مدار غلط بنایا گیا ہے۔ اس شعر میں انسان کاکوئی نفسیاتی تجزیہ نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حقیقت کے قطبین بیان ہوئے ہیں۔ اور ’توہمات‘، ’معمولی معمولی وہم وگمان‘ نہیں ہیں۔ امام العارفین شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی نے وہم کو سلطان العارفین کہا ہے، یعنی توہم (وہم میں آنایا لانا) مابعد الطبیعی امور میں منتہائے معرفت ہے۔ اس کی بنیاد پر غیب کے موجود ہونے کا یقین فراہم ہوتا ہے۔اقبال نے گو کہ ’توہمات‘ کو اپنی کمزوری کے معنی میں اور ایک منفی مفہوم میں برتا ہے، تاہم اس کے باوجود انھیں وساوس کی سطح تک لے آنے کا کوئی جواز اور کوئی قرینہ شعر میں موجود نہیں ہے۔ انسان کی حقیقی استعدادِ معرفت جن دوسروں سے عبارت ہے وہ یہاں بیان ہوئے ہیں، یعنی تحقق (Realisation) اور اعتبار علم ومعرفت ان دونوں سے مرکب ہے۔ان میں سے کوئی ایک جز بھی منہا نہیں کیا جاسکتا۔
کیا اس شعر کا مرکزی خیال یہ نہیں ہے کہ انسان کبھی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی اعتبار میں الجھ کر رہ جاتا ہے؟ اعتبار یعنی حقیقت کا واجب الاثبات تصور! یہ تصور حقیقت کو محیط نہیں ہے مگر اسی پر قائم ہے۔بالکل اسی نسبت کے ساتھ جوشخص وعکس اور اصل وظل میں کارفرما ہے۔
خواجہ صاحب چاہتے تو علامہ کے فکری مرتبے کی رعایت سے اس شعر سے ان کا تصورِ علم بھی برآمد کرسکتے تھے۔

۷
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
’’کائنات انسان سے بہت قدیم ہے بلکہ ہمارے عقیدے کے مطابق جن، فرشتے اور شیطان بھی انسان سے قدیم تر ہیں۔ علمِ حیاتیات کے مطابق نباتاتی اور حیوانی زندگی انسان سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ گویا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان دنیا میں سب کے بعد پیدا ہوا۔ تاہم انسان سے پہلے جتنی مخلوقات تھیں وہ انسان جیسی ذہین اور ذی شعور نہیں تھیں۔
خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو اسے علم سکھایا جس سے دوسری مخلوقات محروم تھیں اور اس کی فطرت میں یہ مادّہ رکھا کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ذریعے کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ گویا کائنات کے اسرار کو منکشف کرنے والی شخصیت کو پیدا کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کے جملہ رازوں کو سب پر ظاہر کر دیا جائے۔ ’میں ہی تو ایک راز تھا‘ کا ٹکڑا ظاہر کرتا ہے کہ سارے رازوں کا راز داں ایک ہی تھا یعنی انسان، گویاانسان کو وجود میں لا کر اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے تمام سربستہ رازوں کو ظاہر کرنے کا سامان خود ہی مہیا کر دیا۔‘‘ ص۔ ۷،۸

تجزیہ:     نامکمل اور عامیانہ
تبصرہ:    بات انسان کے شعور اور ذہانت کی نہیںہورہی بلکہ اس کی حقیقت اور وجودی مرتبے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ’راز‘ کا کوئی تعلق ’کائنات کے اسرار ورموز‘ سے نہیںہے۔ یہ بالکل سامنے کا نکتہ نظر انداز ہو جانے سے تفہیم کا رُخ غلط سمت میں ہو گیا اور سطح بھی گر گئی۔ اس شعر میں انسان اپنے علم اور شعور کے ذریعے سے کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا نہیں بلکہ خود حقیقتِ کائنات ہے۔
تفہیم بالِ جبریلکا ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اقبال کے بہت بنیادی تصورات کو ایک معمولی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات بنا کر رکھ دیاگیا ہے۔ اس شعر کے ساتھ بھی یہی ستم ظریفی ہوئی ہے۔ اقبال حقیقتِ انسان کا بیان کر رہے ہیں جو سرِّو جود اور غایت ہستی ہے، خواجہ صاحب اس سے کوئی سائنس دان وغیرہ مراد لے رہے ہیں۔ اقبال انسان کو مقصودِ کائنات کہ رہے ہیں اور خواجہ صاحب کائنات کو مقصودِ انسان بتاتے ہیں۔

۸
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا
’’اے خدا! اگر ستارے ٹیڑھی چال چل رہے ہیں اور ان کی کج روی کے باعث دنیا پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار میں نہیں بلکہ تو ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اچھا ہے یا برا اس کی فکر کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا تیری تخلیق کی ہوئی ہے اس لیے دنیا کے افعال کا ذمہ دار تو ہے میں نہیں ہوں۔‘‘  ص۔۸
واضح رہے کہ اس شعر میں(بلکہ پوری غزل میں) تیرا کا اشارہ خدا کی طرف ہے اور میرا کا اشارہ انسان کی طرف۔
اقبال اس شعر میں یہ کہتے ہیں کہ خدا کائنات اور جہان کا خالق ہے اور مالکِ تقدیر ہے اس لیے اگر دنیا میں خرابیاں ہیں تو مجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیںہے۔ اس کی فکر مالکِ کائنات کو خود ہی ہونی چاہیے۔
اقبال اپنے کلام میں بعض جگہ انسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خاصے بے باک ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ان کا لہجہ اعتراضات کی زد میں آجاتا ہے۔ اس لہجے کی ایک نمایاں مثال نظم ’شکوہ‘ ہے جب کہ یہ غزل بھی تقریباً اسی انداز کی ہے۔‘‘ ص۔  ۸

تجزیہ:    غلط اور نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:    اس غزل کی تفہیم کا آغاز ہی اس پس منظر میں ہونا چاہیے تھا کہ یہاں اقبال نے ایک اونچی سطح پر انسان کو اﷲ سے ہم کلام کر دکھایا ہے جس میں تمام بڑے موضوعات اور حقائق کا احاطہ ہوگیا ہے۔ یہ غزل ایک بہت بڑے منظر کی طرح ہے۔ اس کے ایک سرے پر انسان ہے اور دوسرے پر خدا اور درمیان میں وجود، تقدیر اور کائنات کا پورا پھیلائو۔ وجود کے قطبین یعنی خدا اور انسان اور وجود کی تثلیث یعنی خدا، انسان اور کائنات کی ایسی ڈرامائی صورت گری اپنی تفہیم میں معنی کی بلند ترین سطحوں سے اتارا جانا روا نہیں رکھتی۔
الفاظ کے عامیانہ درجے پر مستعمل اور متعین مفاہیم سے ضمناً بھی کوئی سروکار رکھنا، انسانی تخیل میں صورت پکڑنے والی اس عظیم ترین معنویت کو جو اس فضا میں گندھی ہوئی ہے، غارت کر سکتی ہے۔
اس شعر میں جو الم ناکی، بے بسی اور فکر مندی پائی جاتی ہے، تشریح میں اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک بے حس اور لاپروا آدمی مقصدِ تخلیق کا انکار کرکے اپنے خالق سے کٹ حجتی اور گستاخی پر اتر آیا ہے۔

۹
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا
’’خدا عرشِ معلی کا مکیں ہے اور عرشِ معلی کو لامکاں بھی کہا جاتاہے۔ اگرچہ وہ لامحدود ہے مگر اُس میں ہُو کا عالم طاری رہتا ہے اور وہاں کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ جب کہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں محبت کرنے والے اور اس میں ناکام ہو کر فریاد کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ دنیا میں لوگوں کو اپنی تمنائوں کے حصول کی شدید خواہش رہتی ہے مگر ان کا حصول ممکن نہیں ہوتا، اس لیے عشق انھیں مصروفِ ہنگامہ رکھتا ہے۔ گویا دنیا اگرچہ پریشان کن جگہ ہے مگر اس کے ہنگامہ خیز اور دلچسپ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب کہ لامکاں پر سکون ہے مگر غیر دلچسپ۔ بقول اقبال اگر لامکاں کی عافیت کوشی دلکش ہنگاموں سے تہی ہے تو اس کا ذمہ دار اﷲ ہی ہے جس نے اپنے لیے لامکاں کی تنہائی پسند کی ہے۔‘‘  ص۔ ۸،۹

تجزیہ:    نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب، عارفانہ روایت سے ناواقفیت
تبصرہ:    اس شرح میں غلطی بھی ایسی ہے گویا ابھی ایجاد کی گئی ہے۔ گو کہ یہ کوئی اچھا شعر نہیں ہے اور اعتراض کی بھی خاصی گنجائش پائی جاتی ہے تاہم اقبال کی کمزوری بھی کسی معمولی ذہن کی کمزوری نہیں ہے، جیسی کہ خواجہ صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ نہ خدا عرشِ معلی کا مکین ہے نہ عرش معلی لامکاں ہے نہ لامکاں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سناٹا چھایا رہتا ہے اور کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ نہ لامکاں کا اس روز مرہ کی دنیا سے کوئی تقابل کیا جا رہا ہے۔ غرض ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی غلطی برآمد ہوتی ہے، مثال کے طور پر :
۱۔ لامکاں پر سکوں ہے مگر غیر دلچسپ، ۲۔ لامکاں کی عافیت کوشی دلکش ہنگاموں سے تہی ہے، ۳۔ اﷲ نے اپنے لیے لامکاں کی تنہائی پسند کی ہے۔
ذرا خیال تو فرمائیے کہ ان باتوں سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں:
۱۔    اﷲ کے لیے کوئی چیز دلچسپ یا غیر دلچسپ ہو سکتی ہے، یعنی اس کے ہاں بھی انسانوں جیسی طبیعت اور میلانات پائے جاتے ہیں۔
۲۔     خدا، نعوذ باﷲ، عافیت کوش ہے۔
۳۔    لامکاں کوئی ایسی جگہ ہے جو خدا سے پہلے موجود تھی وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ شارحِ محترم ان نتائج کا وسوسہ بھی نہیں رکھتے ہوں گے لیکن عجزِ بیان اور ان موضوعات کے نامانوس ہونے کی وجہ سے یہ بے احتیاطیاں ان کے ذہن سے نہیں بلکہ ان کے قلم سے سرزد ہوئی ہیں۔
میں خود اس شعر کی شرح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابلِ اعتراض لگتا ہے۔ تاہم اتنی بات ضرور عرض کروں گا اس معمولی اور جذباتی شعر میں حقیقتِعشق کو اس کے انتہائی تناظر میں برسرِ عمل دکھایا گیا ہے۔ انسان عاشق ہے اور اﷲ محبوب۔ انسان تو اپنے عشق کے تجربے سے بہرہ مند ہے لیکن اﷲ جس ’ماحول‘ میں رہتا ہے وہاں محبوبیت کے احوال کا قیام اور اصول ممکن نہیں۔ خدا کی وحدت اور اکملیت نے اسے بالکل تنہا کر دیا ہے اور یہ تنہائی بھی ایسی ہے کہ اس میں کسی طرح کے تغیر کاکوئی امکان نہیں۔ اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے کہ جو میںنے نعوذ باﷲ پڑھ کر لکھا۔ ایک اور مطلب بھی نکلتا ہے کہ خدا کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہے جسے حاصل کرنے کی کوشش خود اس کے ارتقا اور اکمال کا سبب بنے۔ یہ مضمون بھی شعر میں اپنا قرینہ رکھتا ہے۔

۱۰
اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
’’اُسے، کا اشارہ ابلیس کی طرف ہے۔ صبحِ ازل جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں نے خدا کے حکم پرآدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ اس پر وہ راندۂ درگاہ ہوگیا اور اس وقت سے اس کا کام انسانوں کو بہکانا ہے۔
بعض صوفیہ نے ابلیس کے انکار کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ابلیس کٹر توحید پرست تھا اس لیے وہ خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اقبال کا خیال ہے کہ دنیا میں خیر کا وجود شر کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر خیر ہی خیر ہو تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہو سکتا کہ خیر اچھی چیز ہے۔ چیزیں اپنے تضاد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ابلیس نے خدا کے فرمان کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ انسان کے لیے دنیا میں خیر اور شر کا تصادم پیدا کرکے خیر کی قوتوں کو مہمیز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ابلیس کا یہ انکار درحقیقتِ انسان کی بہتری کے لیے تھا۔ پیامِ مشرق کی نظم ’تسخیرِ فطرت‘ کے پانچویں حصے ’صبحِ قیامت‘ میں اقبال نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ابلیس قیامت کے دن اپنا دفاع اسی انداز میں کرے گا۔
تاہم اس شعر میں اقبال نے قدرے مختلف بات کہی ہے۔ یہاں ان کا یہ کہنا ہے کہ ابلیس کو خدا کے حکم کے آگے انکار کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ غالباً یہ انکار خدا کے ایما پر کیا گیا تھا۔ چونکہ ابلیس خدا کے مقرب ترین فرشتوں میں شامل تھا، اس لیے امکان یہ ہے کہ اس انکار میں رضائے خداوندی شامل تھی۔‘‘  ص۔ ۹

تجزیہ:    نامکمل اور سطحی تفہیم
تبصرہ:    یہ تشریح بھی ایسی ہے کہ قاری ایک خاص سطح پر اُترے  بغیر اس سے مستفید نہیں ہو سکتا۔
۱۔ ’’اقبال کا خیال ہے دنیا میں خیر کا وجود شر کی وجہ سے قائم ہے۔‘‘ یہ خیال اس شعر میں تو نہیںپایا جاتا، علامہ نے کہیں اور بیان کیا ہو تو اس کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔ شر کا مقوّمِ خیر ہونا خواہ اس دنیا میں سہی، ایک بالکل غلط تصور ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ شر سے خیر کی پہچان میسر آتی ہے لیکن اس سے تجاوز کرکے خیر کے قیام ہی کو شر پر منحصر کر دینا سخت غلطی ہے۔ خواجہ صاحب اتنی ہی بات کہنا چاہتے ہیں اور یہی کہی بھی ہے لیکن موضوع اور اسلوب کی اجنبیت کی وجہ سے اس طرح کی لغزشیں ان سے بار بار سرزد ہوتی ہیں۔
۲۔ ’’ابلیس نے خدا کے فرمان کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ انسان کے لیے دنیامیں خیر اور شر کا تصادم پیدا کرکے خیر کی قوتوں کو مہمیز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ابلیس کا یہ انکار درحقیقت انسان کی بہتری کے لیے تھا۔‘‘
یہ پوری بات اس شعر کی فضا سے لگّا نہیں کھاتی۔ مانا کہ پیامِ مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بے اصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے، مگر اِس کا اس شعر سے کیاتعلق۔ اس شعر میں تو گویا خدا کی شیطان سے نفرت کو فوکس (focus) کیا گیا ہے اور شیطان سے نقصان اٹھانے والے انسان کی زبان سے خدا کو اسی مصلحت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو تخلیقِ ابلیس میں اس کے پیشِ نظر رہی ہوگی۔ نیز خدا اور شیطان کے اس قدیم تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ابلیس کے انکار سے پہلے تک خود فرشتوں کے لیے موجبِ رشک تھا۔ اقبال اس تقرب کو حوالہ بنا کر انکارِ ابلیس کو ایمائے خداوندی پر مبنی قرار دے رہے ہیں جس کا علم ان دونوں کے سوا کسی کو نہیں۔ وہ مقربِ خاص جو رضا اور ایما کو اپنی قیمت پر پورا کر دکھائے، وہ بھلا واضح حکم سے سرتابی کر سکتا تھا؟
خواجہ صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے مگر جس سطح پر لے جا کر کہی ہے اس سے بہتر تھا کہ کاش نہ کہتے۔
اس شعر میں محض ’رازداں‘ ہی کو کھول دیا جاتا تو اس کے شایانِ شان مفاہیم خود بخود ذہن کی گرفت میں آتے چلے جاتے۔

۱۱
محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
’’یہ شعر بالِ جبریل کے انتہائی مشکل اور مبہم اشعار میں سے ہے۔ اس پر بڑی بحث ہو چکی ہے اور ہر شارح اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتا ہے۔ اس شعر کی بنیادی الجھن ’حرفِ شیریں‘ کی ترکیب ہے۔ یوسف سلیم چشتی کے بقول اس سے مراد ’جذبۂ عشق‘ ہے۔ مگر شعر میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیںجس سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے۔ بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد قرآنِ پاک ہے مگر یہ اس لیے درست نہیں کہ ’قرآن‘ پہلے مصرعے میں موجود ہے اور دوسرے مصرعے میں حرفِ جزا ’مگر‘ کے بعد ’قرآن‘ کا لفظ دوبارہ لانا موزوں نہیں۔ ’مگر‘ کے بعد دوسرے مصرعے میں پہلے مصرعے کے کسی بنیادی لفظ کی تکرار نہیں ہونی چاہیے۔
میرے خیال میں اس شعر کی اصل الجھن اس کی ردیف ہے، ’تیرا ہے یا میرا‘ جو پوری غزل میں دہرائی گئی ہے۔ اس غزل کے باقی تمام اشعار میں ’تیرا ہے یا میرا؟‘ کے سوال کا جواب ہے ’تیرا‘ مگر زیرِ نظر شعر میں اس کا جواب ہے ’میرا‘ … یہ کوئی فنی خامی نہیں ہے۔ شاعر ردیف کو کسی طرح بھی بلوانے کا اختیار رکھتا ہے۔
اب شعر پر غور۔ اقبال خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آنحضورؐ بھی تیرے، جبریل بھی تیرے حکم کا پابند اور قرآن بھی تیرے ہی الفاظ…گویا خدا آنحضورؐ کو جبریل کے ذریعے اپنے احکامات قرآن کے الفاظ میں پہنچاتا ہے تو اس میں دم مارنے کی مجال نہیں ہو سکتی، گویا سب کچھ تیرا ہی تیرا ہے۔ کائنات بھی تیری، کائنات کا افضل ترین بشر بھی تیرا اور اس تک پہنچنے والے احکامات بھی تیرے۔ اب سوال یہ ہے کہ میرے پاس یعنی انسان کے پاس کیارہ جاتا ہے؟ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کے پاس ’شیریں الفاظ‘ ہیں یعنی اس کی گفتگو … انسان جب زندگی کے متنوع تجربات سے گزرتا ہے تو ان تجربات کو شیریں الفاظ کا روپ دے کر امر کر دیتا ہے اور انھیں خوب صورت انداز میںدوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان اپنے شیریں اور مترنم کلمات کی بدولت ایک تخلیق کار کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے الفاظ اس کے جذبات وتجربات کی ترجمانی عمدہ انداز میں کرتے ہیں۔ اقبال نے اپنے آپ کو تخلیق کاروں کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہوئے لفظ ’میرا‘ سے تمام تخلیق کاروں کی اعلیٰ درجے کی تخلیقات مراد لے رہے ہیں۔
گویا سب کچھ خدا کا ہے مگر انسان کے شیریں الفاظ (فنونِ لطیفہ) صرف اسی کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے پیامِ مشرق کی نظم ’محاورۂ مابین خدا وانسان‘ ملاحظہ کیجیے جس میں انسان کو کائنات کے اندر ایک تخلیق کار کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہی بات اقبال نے ایک فارسی شعر میں یوں کہی ہے:
جہاں او ساخت ایں او خوبتر ساخت
مگر با ایزد انباز است آدم
(ترجمہ: اس نے جہان کو بنایا، اس نے اسے بہتر بنایا، شایدانسان خدا کے ساتھ تخلیق میں حصہ دار ہے۔)‘‘ ص۔ ۹،۱۰

تجزیہ:    نامکمل تشریح، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:     تشریح کا نقص واضح کرنے کے لیے اس شعر کے معنوی نکات کو الگ سے بیان کردینا شاید کافی رہے گا۔
۱۔ اے اﷲ تیری ترجمانی کے لیے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہیں، جبریل بھی ہیں اور قرآن بھی۔ آخر میرا بھی تو کوئی ترجمان ہونا چاہیے۔ سو یہ ’حرفِ شیریں‘ یعنی یہ نوائے شوق اور جذبۂ عشق کا اظہار ہی وہ چیزہے جو تیری جناب میں میری ترجمانی کرتی ہے۔
۲۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم، جبریل اور قرآن سے تو ’ظاہر ہے او ریہ نغمۂ محبت جو میرے سینے سے بلندہو کرزبان سے جاری ہو رہاہے، میرا اظہار ہے۔
۳۔ وحی تیرا پیغام ہے میری طرف اور یہ ’حرفِ شیریں‘ میرا جوابی پیغام ہے تیرے حضور میں۔
۴۔ مانا کہ پورا عالمِ وجود تیرا ہی مظہر ہے، مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جذبۂ عشق میںجو میرے حرف حرف کے اندر سمایا ہواہے، کس کا ظہور ہے؟
تیرا یا میرا یا دونوں کا؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ محبت ہی نے تجھے بھی ظاہرکیا اور مجھے بھی مراد تک پہنچایا۔
’حرفِ شیریں‘ کی مراد تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے راستا صحیح چنا لیکن ظاہر ہے وہاں تک نہیں پہنچ سکے جہاں تک پہنچنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ’حرفِ شیریں‘ کو تجربات کے خوب صورت اظہار تک محدود کردیا۔حالانکہ یہ عاشق کا وہ خطاب ہے جو محبوب کے لیے ہو اور اسے خوش کردے۔

۱۲
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
’’اے خدا تیری دنیا کی چمک دمک جس ستارے کی روشنی سے قائم ہے وہ ستارہ انسان ہی ہے۔ دنیا تو انسان سے پہلے بھی موجود تھی مگر سنسان اور ویران تھی۔انسان نے دنیا میں آکر اسے خوب صورت بنایا اور آباد کیا۔ اگر انسان مٹ گیا یااس کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں جاتی رہیں تو یہ دنیاپھر سے ویران ہو کر تاریک سیّارے میں بدل جائے گی۔گویا انسان کا زوال دنیا کا زوال ثابت ہوگا اور یہ دراصل خدا کا نقصان ہوگا کیوں کہ اس کی بنائی ہوئی دنیاانحطاط پذیر ہو جائے گی۔‘‘ ص۔ ۱۱

تجزیہ:    نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:    اتنا خوب صورت شعر اس سطحِ تفہیم پر اتر کر ایک عام سی بات بن کر رہ گیاہے۔
معمولی الفاظ کسی بڑے معنی کو سکیڑ کر ایک ناقابلِ التفات مفہوم سے بدل دیتے ہیں۔ یہ مفہوم خواہ درست ہی کیوں نہ ہو، اس معنویت سے نسبت او رمطابقت سے محروم ہو جاتا ہے جو گویا معنی کا اصل پیکر ہے۔ شعر کی معنویت کو اس کے فکری اور جمالیاتی درو بست سے منقطع کرکے محض ایک سیدھی سی بات بنا دینے کا یہ عمل شاعری کے نظامِ فہم اور آدابِ ذوق سے بری طرح متصادم ہے۔
مثال کے طور پر یہ شعر سمجھائے جانے سے زیادہ دکھائے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی شرح کوکب= ستارہ اور زیاں= نقصان کی نہج پرنہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ شعر خوب صورتی کی جیسی وسعت اور پیچیدگی رکھتا ہے اسے کھولا جائے۔ ’کوکب‘ اور ’آدمِ خاکی‘ میں کئی نسبتیں ہیں انھیں دریافت کیے بغیراس شعر پر کسی بامعنی گفتگو کا ڈول نہیںڈالا جا سکتا۔
۱۔ اسی طرح ’زوال‘ کوکب اور آدمِ خاکی کے ساتھ ایک دُہری مگر پیچیدہ نسبت رکھتا ہے۔ اس کا ادراک بھی ضروری ہے ورنہ یہ شعر لغات کھنگالنے کے باوجو دبند دروازے کی طرح رہے گا۔
مثال کے طورپر:
۱۔ ’کوکب‘ یعنی ستارئہ بزرگ ستاروں کی دنیامیں وہی مرکزی حیثیت رکھتا ہے جو موجودات کے عالم میں ’آدم خاکی‘ کوحاصل ہے۔
۲۔ آدمِ خاکی کو ’کوکب‘ کہنے کے بعد ’کوکب‘کا نوری/ سماوی ہونا محذوف کرکے اور ’آدم‘ کے ’خاکی‘ ہونے کی تصریح کرکے کئی نکتے پیدا کیے گئے ہیں۔
۱:۲۔  ’کوکب‘ صرف آسمانی ہے جب کہ ’آدم‘ محض ’خاکی‘ نہیں ہے۔
۲:۲۔  انسان صورتاً خاکی اور حقیقتاً سماوی ہے۔
۳:۲۔  ’خاکی‘ ہونا انسان کی جہتِ ادنیٰ ہے اور اس کا بھی یہ مرتبہ ہے کہ سماویات اس سے کمتر ہیں۔
 یعنی اس کا ’خاکی‘ ہونا بھی دوسروں کے آسمانی ہونے سے افضل ہے۔
۴:۲۔  یہاں ایک اصول برت کر دکھایا گیا ہے۔ کسی چیزکا شرف اس وقت کلّی، مطلق اور حقیقی مانا جائے گا جب اس کی تعریف (definition) کا ادنیٰ جز بھی مقابل کی اعلیٰ جہت سے برتر ثابت ہو جائے گا۔
۵:۲۔  انسان، معنی کے ارضی سیاق وسباق میںبھی کائنات کے آخری حدود تک رسائی رکھتا ہے، کیوں کہ وہ ’خاکی‘ ہونے کی حالت میں ’کوکب‘ بھی ہے۔
۶:۲۔  آسماں، تقدیر کا محل ہے اور ’کوکب‘ اس کا ترجمان، اسی طرح زمین، تاریخ کی کارگاہ ہے اور ’آدم‘ اس کا مظہر۔ ’آدم‘ کو ’کوکب‘ کہ کر یہ دکھایا گیا ہے کہ انسان نے تقدیر اور تاریخ کو ایک کردیا ہے۔

۱۳
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
’’اے محبت اپنے خوب صورت گیسوئوں کو اور زیادہ خوب صورت بنا تاکہ میں ان گیسوئوں کے جال سے کبھی باہر نہ نکل سکوں۔ اس طرح تو میری ہوش، عقل، دل اور نظر کو شکار کر لے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے تیرا اسیرہو جائوں۔
صوفیانہ شاعری میں خدا کو عموماًدنیوی محبوب کے روپ میں ظاہر کیاجاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام خصوصیات وابستہ کر دی جاتی ہے جو محبوبِ مجازی کے لوازم میں ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لوگ عشقِ حقیقی کو پہچان کر عشقِ مجازی کے تجربات کی روشنی میں بہتر طور پرسمجھ سکتے ہیں۔‘‘
اقبال کا تخاطب یہاں اﷲ سے ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا کے ساتھ اس کا تعلق ہمیشہ مضبوط رہے اور اﷲ کی ذات میں ہمیشہ اسے اتنی کشش محسوس ہو کہ وہ اسی کا ہو کر رہ جائے۔‘‘ ص۔ ۱۱

تجزیہ:    نامکمل اور سطحی شرح، غیر موزوں اسلوب، عرفانی دائرے کی مصطلحات سے بے توجہی
تبصرہ:    ’گیسو‘ اور ان کی ’تابداری‘، ’ہوش‘، ’خرد‘، ’قلب‘، ’نظر‘ یہ سب بہت بنیادی اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کے فہم پر شعر کی معنویت کا حصول موقوف ہے۔ ’گیسو‘ وہ شانِ اخفا ہے جو جمال کے معنی کو اس کی صورت پر غالب رکھتی ہے تاکہ محدودیت کا نقص نہ پیدا ہو۔
’گیسوئے تابدار‘ سے مراد ہے:
۱۔  تجلیِ جمال جو شانِ تنریہ کے منافی نہ ہو۔
۲۔  مخفی کو مخفی تر اور ظاہر کو ظاہر تر کرنے والی تجلی۔
۳۔  کششِ الہیہ کا وہ درجہ جہاں حصول بھی یقینی ہے اور بے حصولی بھی۔ یہاں قرب کا نشاط اور اٹل دوری کا قلق ایک کیفیت میں ڈھل جاتاہے۔
۴۔  وہ تجلی جس سے ظہور وخفا اور جمال وجلال کی عینیت کا انکشاف ہوتا ہے۔
۵۔ ذات کا پردۂ جمال
ایک گیسوئے تابدار میں عرفانی عشقیہ شاعری کے تناظر میں اتنی معنوی جہتیں پائی جاتی ہیں اور یہ سب کی سب اس شعر میں کار فرما ہیں۔ اسی طرح دیگر کلمات کو دیکھ لیناچاہیے۔
۱۔ ہوش وخرد
ہوش سے مراد ہے شعور جو حواسِ خمسہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس شعور کی ترقی یافتہ صورت کو عقل (یعنی خرد) سے تعبیر کرتے ہیں۔ (شرحِ بالِ جبریل، یوسف سلیم چشتی، ص ۔۹۷)
۲:۱۔  اپنا احساس اور دوسرے کی خبر۔ ’ہوش‘ سے مراد ہے یہ احساس کہ میں ہوںاور ’خرد‘ سے مراد ہے یہ شعور کہ کائنات ہے۔
۳:۲۔  ہوش کا تعلق حس اور حال سے ہے اور ’خرد‘ کا ذہن اور استدلال سے۔
۴:۲۔  ’ہوش وخرد شکار کر‘ کا مطلب ہے حبِ عقلی عطا فرما۔
۲۔ قلب ونظر
۱:۲،  دل جو محبوب کی معرفت کے لیے ہے او رچشمِ دل جو محبوب کے دیدار کے لیے ہے۔
۲:۲،  ’نظر‘ اگر فکر کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے استدلال اور خیال، اور اگر قلب کے ساتھ ہو تو اس سے مراد یا تو صرف آنکھ ہوگی یا ’چشمِ دل‘۔ اہلِ منطق نے ’فکر‘ کو جنس اور ’نظر‘ کو اس کا فصل قرار دیا ہے، یہی اصول قلب ونظر پر بھی وارد ہوتا ہے۔ نظر کو قلب کی ایک استعداد سمجھنا چاہیے۔
۳:۲،  ’قلب ونظر شکار کر‘یعنی حبِ عشقی عطا فرما۔
ان تشریحات کی روشنی میں اب شعر کے مرکزی مضمون کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ اے اﷲ مجھے حبِ عقلی عطافرما تاکہ تیری معرفت نصیب ہو جائے اور حبِ عشقی نصیب فرما تاکہ تیری محبت میسر آجائے۔ لیکن شعر کا بنیادی مضمون متعین کرنے کا چلن ابتدائی سطح پر ہی کارآمد ہے۔ شعر کو اس کی تمام تفصیلات میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور سب سے پہلے اس کے جمالیاتی مرکز تک پہنچنے کا سامان کرنا چاہیے، مثلاً تابدار ایک عام سا محدود المفاہیم لفظ ہے۔ اقبال نے اس لفظ کو محض مروّجہ مفاہیم میںرکھتے ہوئے ایک ایسی فضا بنا کر استعمال کیا ہے کہ اس میںتنوعِ معنی سمٹ آیاہے۔ ’گیسوئے تابدار‘ گھنگریالے بالوں کوکہتے ہیں جن میں ایک قدرتی چمک بھی ہو۔ ان کا حلقہ در حلقہ اور چمک دار ہونا اس دلالت تک لے جاتا ہے کہ ہر تجلیِ جمال اپنے ناظر کو بندگی کا ایک نیا طوق بھی پہنا  دیتی ہے، یعنی مشاہدۂ جمال بندگی میں تسلسل، تنوع اور ترقی کا موجب ہے۔

۱۴
عشق بھی ہو، حجاب بھی، حسن بھی ہو حجاب بھی
یاتو خود آشکار ہو، یامجھے آشکار کر
’’پہلا مصرع استعجابیہ ہے۔ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ عشق بھی پردے میں ہو اور حسن بھی چھپا ہوا ہو۔ اگر حسن اور عشق دونوںپردے میں ہوں گے تو عشق میں شدت کس طرح پیدا ہوگی؟ اگر زیادہ عرصے تک حسن وعشق ایک دوسرے سے مخفی رہیں گے تو عشق زوال پذیر ہو جائے گا۔ اس لیے اے محبوب! یا تو خود پردے سے باہر آکر اپنا جلوہ مجھے دکھا دے یا مجھے پردے سے باہر نکال اور میرے عشق میں شدت پیدا کردے، تاکہ میرا اور تیرا تعلق دائمی حیثیت اختیار کر لے۔ اس شعر میںاقبال نے اﷲ سے دائمی محبت رکھنے کی خواہش کی ہے۔ ‘‘ ص۔ ۱۱، ۱۲

تجزیہ:    نامکمل اور سطحی تفہیم، ناپختہ اسلوب
تبصرہ:    اس شعر کی کوئی تفہیم اس نکتے کو نظرانداز کرکے ممکن نہیں ہے کہ:
دونوں میں سے کوئی آشکار ہو جائے نتیجہ ایک ہی ہے۔ حسن ظاہر ہوگیا تو گویا عشق پردے سے نکل آیا اور عشق آشکار ہو گیا تو گویا حسن کا ظہور ہوگیا۔
مطالبہ یہ ہے کہ خدا یا! خود کو ظاہر کر دے تاکہ مجھے پورا اظہار مل جائے یا میری حقیقت کو آشکار کر دے تاکہ تو پوشیدہ نہ رہے۔
دوسرا لائقِ اعتبار مفہوم یہ ہے کہ بارِ الہٰ! یا تو خود کوظاہر کر دے اور مجھے چھپا رہنے دے یا مجھے ظاہر کر دے اور خود کو چھپا رہنے دے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہونی چاہیے ورنہ کارخانۂ وجود بے معنی ہے اور بے اصل۔
اس شعر میں اقبال نے عشق کووحدت الوجود کی گرفت سے نکالا ہے اور بقا، امتیاز اور غیریت کی اساس بنایا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی تو اس شرح میں نہیں۔ جو کچھ ہے بھی وہ بھی بے احتیاطی سے بیان ہوئی ہے۔

۱۵
تو ہے محیطِ بے کراں میںہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بے کنار کر
’’اے خدا تیری ہستی ایک ایسے وسیع سمندر کی طرح ہے جس کا کنارہ نہ ہو، جب کہ میں تیرے سامنے ایک حقیر ندی کی طرح ہوں۔ وسیع سمندر کے سامنے چھوٹی سی ندی کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے! اس لیے میں تجھ سے گزارش کرتا ہوں کہ یا تو مجھے اپنے ساتھ ملالے، ورنہ مجھے بے حد وسیع کردے تاکہ میں تجھ سے جاملوں۔ غرض دونوں صورتوں میںمقصد یہ ہے کہ میری ذات کی ندی خدا کی ذات کے محیطِ بے کراں میںمل جائے۔
ان اشعار میں اقبال ایک صوفی دکھائی دیتا ہے اور خدا کی ذات سے مل جانے کو اپنا مطمحِ نظرقراردے رہا ہے۔‘‘  ص۔ ۱۲

تجزیہ:    نامکمل تفہیم، تصوف کی علمیات سے بے توجہی
تبصرہ:    یہاں خواجہ صاحب نے ایک نکتہ نکالا ہے جس سے شعر میں معنویت کی ایک تازہ پرت کا انکشاف ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ بڑی باتوں کو بہت گرا کربیان کرنا اور خود اپنی ہی کہی ہوئی بات کو درست نتیجے تک نہ پہنچنے دینا!
یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ہم کناری ہو یا بے کناری، ’’دونوں صورتوں میں مقصد یہ ہے کہ میری ذات کی ندی خدا کی ذات کے محیطِ بے کراں میں مل جائے‘‘ لیکن اس بات کو کہنے کا معیاری طریقہ یہ تھا کہ دو ذاتیں ایک دوسرے کے تقابل میںلامحدود نہیں ہو سکتیں۔ تقابل کیا ویسے ہی دو وجود لا محدود نہیں ہو سکتے۔ لامحدود ہمیشہ ایک ہوگا۔ اس شعر میں سے یہ قرینہ ضرور نکلتا ہے کہ لا محدودیت کی آرزو دراصل حقیقی لامحدود میں گم ہو جانے کی تمنا سے ظاہر ہے۔ محدود، لامحدودیت کے اقتضا کامتحمل نہیں ہو سکتا، اور وہ شعور جوان دونوں کے فرق کو جانتا ہے اس کے لیے یہ تقاضا اس لیے محال اور لایعنی ہے کہ اس اقتضا کی تکمیل ہستی کے کسی نظام میںممکن نہیں۔ محدود کبھی لامحدودیت کو نہیں پا سکتا۔ کیوں کہ یہ شعور انسان کا خاصہ ہے، لہٰذا اس شعر میں بے کناری کی طلب کو عمومی نہج سے الگ کرکے دیکھا جائے گا اور اس مطالبے سے نکلنے والے فوری مفہوم کو شعر کی مراد نہیں بنایا جائے گا۔ یوں بھی اس شعر میں جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں معانی کی ساخت محض لفظی اور محض ذہنی نہیں رہتی بلکہ جمالیاتی ہو جاتی ہے۔ حقائق کی معنوی تشکیل کا یہی انداز ہے جس سے ورائے عقل امور میں ایک رنگِ حضور پیدا ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد ’’ان اشعار میں اقبال ایک صوفی دکھائی دیتا ہے اور خدا کی ذات سے مل جانے کو اپنا مطمعِ نظر قراردے رہاہے‘‘ اس لیے ناقابلِ قبول ہے کہ ہم کناری ہو یا بے کناری، دونوں حالتیں عام مفہوم میں خدا میں ضم ہو جانے کی ہیں۔ انسان خدا سے ہم کنار ہو جائے یا اس کی طرح بے کنار بن جائے، نتیجہ ایک ہی ہے۔ زیرِ نظر شعر میں ’یا‘ کے ذریعے سے دونوں میں مکمل امتیاز قائم کیا گیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟
اقبال کہ یہ رہے ہیں کہ اے اﷲ! یا تو مجھے اپنی ذات میں سمولے یا پھر مجھے بھی وہ وجود عطافرما جو غیر متناہی امکانات کا حامل ہو اور تیرے ہی وجود کی طرح حقیقی ہو۔ اس خواہش کا پہلا ٹکڑا دراصل خواہش میں شامل نہیں ہے۔ ’یا‘ کا حرف بیچ میں آکر انتہائی نامطلوب اور انتہائی مطلوب کو ایک فقرے میں جمع کر دیتا ہے۔ خدا سے ہم کنار ہونا ’نامطلوب‘ ہے او ربے کنار ہونا ’مطلوب‘۔
یہاں یہ اشکال پید اہوسکتا ہے کہ ’بے کناری‘ کی آرزو اگر خدا میں مدغم ہو جانے پر دلالت نہیں کرتی تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرا خدا بننے کی تمنا کی جا رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شے کی تعریف اس کے ثابت شدہ وجود کے مرتبے کی رعایت سے کی جاتی ہے۔ خدا کی واقعی ’بے کرانی‘ کا مفہوم وہ نہیں ہو سکتا جو انسان کی متصورہ ’بے کناری‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسان میں ’بے کناری‘ کی خواہش کا مطلب اس سے زیادہ نہیں کہ میں اپنے موجودہ حدودِ ہستی کو توڑنا چاہتا ہوں اور اپنے تمام امکاناتِ وجود کو عمل میں لانے کا طالب ہوں۔
اقبال ان شاعروں میں سے نہیں ہیں جوبات سوجھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ ایک باقاعدہ فکر کے حامل ہیں اور ان کے شعر میںبھی مضمون ان کے شعور اور ذہن کی چھلنی سے گزر کر سامنے آتا ہے۔ وہ بھلا ’خدا کی ذات سے مل جانے‘ کو اپنا مطمحِ نظر بنا سکتے ہیں؟
امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ اِس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے کہ:
اس شعر میں اقبال نے وجودِ انسانی کی غیرمحدود توسیع اور اس کی actualisation کا تصور پیش کیا ہے، یعنی انسان موجود کی حیثیت سے حقیقی ہے نہ کہ ’اعتباری‘، اور استعدادِ وجود کی جہت سے غیر محدود ہے نہ کہ محدود۔

۱۶
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو، تو مجھے گوہرِ شاہوار کر
’’اے خدا میں ایک سیپی کی طرح ہوں اور اس سیپی کے موتی کی حفاظت اور پرورش کا تو ہی ذمہ دار ہے اور تو ہی اسے لٹنے سے بچا سکتا ہے ورنہ کوئی بھی اس موتی کو لوٹ کر صدف کو بے آبرو کرسکتاہے۔ لیکن اگر میں کم قیمت مٹی کا ٹھیکرا ہوں تو بھی تو اسے ایسے قیمتی موتی میں تبدیل کر سکتا ہے جو بادشاہوں کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہو۔
دوسرے لفظوں میں اگر میری کوئی قیمت ہے تو یہ تیری مہربانی سے ہے اور اگر میری کوئی حیثیت نہیںہے تو میں تیری ہی توجہ سے صاحبِ حیثیت بن سکتاہوں۔‘‘ ص۔ ۱۲

تجزیہ:     سطحی تشریح، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:     کیوں کہ اس شعر کی تفہیم میں غلطی کا سرے سے امکان ہی نہیں تھا، لہٰذا شرح میں غلطی تو نہیں ہے مگر اس کی زبان عجیب سی ہے جس سے وہ نقائص پیداہوگئے ہیں جن سے بچنا صحتِ فہم کے حصول سے زیادہ ضروری ہے۔
۱۔  ’’سیپی کے موتی کی حفاظت اور پرورش کا تو ہی ذمہ دار ہے۔‘‘ خیال رہے کہ یہ اﷲ تبارک وتعالیٰ سے کہا جارہا ہے۔
۲۔  ’’توہی اسے لٹنے سے بچا سکتا ہے ورنہ کوئی بھی اس موتی کو لوٹ کر صدف کو بے آبرو کرسکتا ہے۔‘‘ اپنے گہر کی آبرو کے سلسلے میں اقبال کی فکر مندی اگر اس سطح تک گرسکتی تو وہ اقبال ہرگز نہ ہوتے۔ ’بے آبرو‘ کا لفظ بتا رہا ہے کہ محترم شارح کے ذہن میں ’آبرو‘ کا کیاتصور ہے!

۱۷
نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اِس دمِ نیم سوز کو طائرکِ بہار کر
’’اس شعر میں نوبہار سے مراد اسلام کی نشاۃ الثانیہ یا عروجِ نوہے۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام دنیا میں پھر زندہ ہوگا اور اس کے اُجڑے ہوئے باغ میں دوبارہ بہار آئے گی لیکن مجھے اس کا یقین نہیں ہے کہ میں اس بہارکو دیکھنے اور اس کے نغمے سننے تک زندہ رہوں گا۔ اگرچہ میں آدھی زندگی گزار چکا ہوں لیکن خدا سے التجا کرتاہوں کہ میرے کلام کو اتنا اثر عطا ہو کہ یہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کا ذریعہ بن جائے۔ اگر میری شاعری سے مسلمانوں کو اسلام کے باغ میں آنے والی نوبہار کا پیغام ہی مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔‘‘ ص۔ ۱۳

تجزیہ:    سطحی تشریح، سطحی اسلوب
تبصرہ:    یہاں بھی مضمون واحد ہے، بات کو نیچے لانے کا عمل اسی طرح جاری ہے۔ شعر صاف اور سیدھا ہے لیکن پھربھی ایک بڑے شاعر کا کہا ہوا ہے، اس کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ ’نغمۂ نوبہار، دمِ نیم سوز‘ اور ’طائرکِ بہار‘ میں ایک واضح معنی کو تہ دار اور خوب صورت بنانے کی جو قوت پوشیدہ ہے اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری تھا جو حسبِ معمول نہیں کیاگیا۔

۱۸
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظارکر
’’یہ شعر غزل کے مزاج سے ہٹا ہوا ہے۔ بہرحال یہ غزل کا عیب نہیں ہے کیوں کہ ابتدا ہی سے صنفِغزل میں ریزہ خیالی عام ہے۔
اس شعر میں اقبال خدا سے گلہ گزار ہیں کہ خدا نے انسان کو بہشت کے باغ سے نکال کر دنیامیں پھینک دیا۔ دنیا میں بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ لاتعداد الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس کی مصروفیات اسے دنیا کے کاموں سے اتنی فرصت دیں کہ وہ خدا کی طرف متوجہ ہو سکے۔ دراصل انسان مرکر ہی دنیا کے دھندوں سے فارغ ہوتا ہے اس لیے اب خدا کو اس بات کا طویل انتظار کرنا پڑے گا کہ کب انسان فارغ ہو اور کب اس کی طرف رجوع کرے۔
شعر میں اشارہ یہ ہے کہ یہ انتظار ہر انسان کی موت تک رہے گا۔‘‘ ص۔۱۳

تجزیہ:    تفہیم نامکمل اور غلط
تبصرہ:    ۱۔  یہ شعر غزل کے مزاج سے ہٹا ہوا نہیں ہے۔ اﷲ کے سامنے انسان اپنی حقیقت، تقدیر، غایت اور وجود پر کلام کر رہاہے۔ دنیا کا مذکور ہونا ضروری تھا ورنہ یہ دائرہ، یعنی انسان کی مجموعیت کا دائرہ مکمل نہ ہوتا۔
۲۔  اس غزل میں کوئی ریزہ خیالی نہیں ہے۔ایک theme مسلسل اور مربوط طریقے سے تکمیل دیا گیاہے۔
۳۔  ’کارِ جہاں کی درازی‘ کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاند رات کو خیاطوں کے ذہن پر چھایاہوتا ہے۔ ’کارِ جہاں‘ سے مراد ’دنیاکے دھندے‘ نہیں ہیں بلکہ کائنات کی تسخیر، تعمیر، تدبیر وغیرہ جو انسان کے ذمے ہے۔
۴۔  ’’خدا کو طویل انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ شعر میں خدا کو اتنے ان گھڑ طریقے سے انتظار میںنہیں ڈالا گیا۔ تفہیم میں یا تو خدا کو انتظار کروانے کی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا، اس تشریح نے تو اس تاثر کو اور ہوا دے دی۔
۵۔  ’’یہ انتظار ہر انسا ن کی موت تک رہے گا‘‘گویا معاذ اﷲ موت خدا کے اختیار سے باہر ہے!

۱۹
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
’’شعر کامطلب یہ ہے کہ اکثر انسانوں کا اعمال نامہ اتناسیاہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھ کر خودہی شرم سے پانی پانی ہو جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ خدا کیوں شرمندہ ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خدا اپنی تخلیق یعنی حضرتِ انسان کے سیاہ کارناموں پر ندامت محسوس کرے گا… دراصل اس شعر کے اندازِ بیاں سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ مطلب فقط یہ بتانا ہے کہ عموماً انسان بہت گناہ گار ہوتے ہیں لیکن اپنے گناہوں کا احساس قیامت کے دن اعمال نامہ دیکھ کر ہی ہوگا۔‘‘ ص۔ ۱۴

تجزیہ:    نامکمل اور عامیانہ تفہیم، نامناسب اسلوب
تبصرہ:     تفہیمِ بالِ جبریل میں شرح کا معیار اتنی مستقل مزاجی اور استقامت سے برقرار رکھا گیاہے کہ تنقید اور اعتراض کی یکسانی سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ ایک ہی طرح کی غلطیوں پر تنقید کرنے والا ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی مشکل میںپھنس جاتاہے۔ بہرحال اس شعر کی شرح کا نقص بھی وہی ہے جو ساری کتاب میںکارفرما ہے۔ شعر کو بری نثر میں ترجمہ کر دینا اور اس کے الفاظ کو سب سے نچلی سطح کے مفہوم میں صرف کردکھانا!
۱۔  ’’(مرے اعمال نامے میں) اتنے گناہ درج ہوں گے…‘‘ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اعمال نامہ بالکل کورا ہو۔
۲۔ ’’شاعری میں عموماً ’میں‘ اور ’میرا‘ سے مراد کسی ایک شخص کی ذات نہیں ہوتی بلکہ بحیثیتِ مجموعی انسان مرادہوتے ہیں‘‘۔ اس انتہائی اہم نکتے کی بار بار نشاندہی کا شکریہ! پوری شرح میں زیادہ سے زیادہ ایسے ہی دقائق کھولے گئے ہیں۔
۳۔ ’’اب سوال یہ ہے کہ خدا کیوں شرمندہ ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خدا اپنی تخلیق حضرتِ انسان کے سیاہ کارناموں پر ندامت محسوس کرے گا‘‘۔ اﷲ کا ندامت محسوس کرنا اﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آسکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میںکچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔ شرمساری، خصوصاً خدا کے حوالے سے، ندامت محسوس کرنا ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی کی غلطی پر اسے ذلیل کرنے کے بجائے اسے دیکھنے سے بھی اس لیے گریز کرنا کہ وہ شرمندہ نہ ہو۔
خدا کا شرمسار ہونا اس کی شفقت ورحمت کامظہر ہے جیسا کہ خود خواجہ صاحب نے سعدی کے شعر سے اخذ کیا ہے:
کرم بین و لطف خداوند گار
گناہ بندہ کردہ است و او شرمسار
۴۔  دفترِ عمل پر شرمساری کو محض کثرتِ گناہ سے مشروط کر دینا ٹھیک نہیں ہے۔ زیادہ قوی قرینہ یہ ہے کہ بے عملی موجبِ شرمندگی بنے گی۔

فرہنگ کی سطح بھی یہی ہے۔ لفظ کو اس کے معمولی ترین مفہوم تک محدود کر دینے کا عمل وہاں بھی جاری ہے۔ تمام اندراجات کا تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ سرِدست چند ایک پر ہی گفتگو کیے لیتے ہیں۔
نوائے شوق
’’وہ آرزو جو جذبۂ عشق کی وجہ سے بلند کی جائے۔‘‘ ص۔ ۵
اقبال کے ہاں بالخصوص، اور عرفانی روایت میں بالعموم، عشق انسانی جذبات میں سے کوئی خاص جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی اصل ہے جس سے انسانیت کے تمام حقائق متعین ہوکر علم اور عمل میں آتے ہیں۔ ’نوائے شوق‘ اس کا اظہار ہے۔ باقی تفصیل اوپرآچکی ہے۔
حریمِ ذات
’’خدا کے رہنے کی جگہ، عرش‘‘ ص۔ ۵
اس کی تصحیح بھی اوپر ہو گزری ہے۔ ’خدا کے رہنے کی جگہ‘ سخت قابلِ اعتراض فقرہ ہے۔ روز مرہ کلام کی سطح پر تو شاید اس طرح کی باتیں چل جائیں لیکن ایک اصطلاح کی تفہیم میں ایسے کلمات گمراہ کن ہیں۔ ’لامکاں‘ تو ظاہر میں بھی ’جگہ‘ کاضد ہے، کم از کم اتنا ہی دیکھ لیاجاتا، اس طرح ’عرش‘ بھی لامکاں نہیں ہے بلکہ مقامِ استوا ہے اور اس کی نسبت صفات کے ساتھ ہے نہ کہ ذات کے ساتھ۔
بت کدۂ صفات
’’چونکہ خداکسی بھی چیزسے مشابہت نہیں رکھتا، اس لیے ہم اسے مادی آنکھوں سے نہیںدیکھ سکتے۔ فقط صفاتی ناموں مثلاً رحیم،کریم، ستّار، غفّار کی مدد سے اس کا تصور قائم کر لیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ تصورات ہمارے ذہن میں بتوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور خدا کی حقیقی پہچان میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵
سراسر غلط ہے۔ اس اصطلاح کی درست شرح تبصرے میں بیان ہوچکی ہے، وہیں دیکھ لی جائے۔ ذات وصفات کی عینیت اور غیریت کا مبحث مشہورہے۔ خواجہ صاحب نے اُس طرف توجہ ہی نہیں کی۔
(دیر وحرم کی) نقش بند
’’خالق، بنانے والا، صانع، یہاں مراد ہے کعبہ وسومنات کے ماننے والے یعنی عبادت گاہوں کے متولّی۔‘‘ ص۔۶
گویا میری جستجو دیر وحرم کی متولّی ہے! اس بات کی غلطی اتنی ظاہر ہے کہ تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیںہوتی۔ بہرحال ’نقش بند‘ خیال کو مجسم کرنے والے کے معنی میں آیا ہے۔
دلِ وجود
’’کائنات کا باطن، مراد ہے کائنات کے چھپے ہوئے اسرار۔‘‘ ص۔۷
یہ مطلب بالکل غلط تو نہیں ہے لیکن ناقص ہے۔ شبہ ہے کہ ’کائنات‘ سے محض فزکس کی کائنات مرادلی گئی ہے۔لہٰذا یہ تصریح ضروری ہے کہ ’دلِ وجود‘ حقیقتِ ہستی تک رسائی کے آخری نقطے کو کہا گیا ہے جس میں اسرارِ کائنات وغیرہ خود بخود شامل ہیں۔
ہنگامہ ہائے شوق
’’وہ ہنگامے ہیں جو عشاق عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر برپا کرتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۸
یہاں ’ہنگامہ ہائے شوق‘ سے مراد ہے عشق اوراس کا سلسلۂ اظہار۔ لامکاں چونکہ ظہور اور دوئی سے ماورا ہے اس لیے وہاں عشق کا وجود محال ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، باقی شعر جس مضمون پرمبنی ہے، وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔
لذتِ ایجاد
’’کسی نئی چیزکی دریافت یا ساخت کا لطف، یہاں مطلب یہ ہے کہ انسان جب کوئی نئی چیز بناتا یا دریافت کرتا ہے تو اس سے بہت لطف اندوز ہوتا ہے، یعنی ایجاد باعثِ لذت ہوتی ہے۔‘‘ ص۔ ۱۵
اس طرح کی غلطیاں صاحبانِ علم سے سرزد ہونے لگیں تو آدمی علم وادب کے مستقبل ہی نہیں بلکہ حال سے بھی مایوس ہو جاتاہے۔بہرحال ’لذتِ ایجاد‘ کا مطلب ہے اﷲ کا ذوقِ تخلیق۔ خدا جانے خواجہ صاحب نے اس عجیب وغریب غلط فہمی تک پہنچنے کا راستہ کیسے ایجاد کیا!
مقامِ شوق
’’وہ مقام جو بڑی لگن سے حاصل کیا جائے۔‘‘ ص۔ ۱۷
خواجہ صاحب کی لذتِ ایجاد، یہاں بھی اسی زور شور سے جاری ہے۔ ’مقامِ شوق‘ یعنی مرتبۂ عشق کا یہ مطلب زبان کے کسی معلوم قاعدے سے تو نکالا نہیں جاسکتا، ہاں اپنی طرف سے کوئی طریقہ گھڑ لیاجائے تو الگ بات ہے۔
خود نگہداری
’’مراد ہے ذاتی مفادات کی حفاظت۔‘‘ ص۔ ۲۰
صحیح مطلب: اپنے آپ میں مگن رہنا۔ خود میں مبتلاہو جانا، خود کو عشق میںلازماً آنے والی آزمائشوں سے محفوظ رکھنا، خودی کی نچلی سطح تک محدود ہو جانا، خودی کی حقیقت یعنی خدا سے غافل اور لاتعلق رہنا، انفرادی خودی کواجتماعی خودی میںضم نہ ہونے دینا۔
صوفی وملاّ
’’تاریخِ اسلام میں صوفیہ ظاہری عبادات کے مخالف اور روحانی واردات کے علم بردار تھے، جب کہ ملاّ روحانی واردات سے دامن کش اورظاہری عبادات پرزور دیتے رہے۔ دونوں گروہوں کے پیروکار اپنے بزرگوں کے راستوں سے سرِمو تجاوز نہیں کرتے اور تقلیدی ذہنیت کی وجہ سے اپنے اپنے مسلک پرآنکھیں بند کرکے چلتے رہتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۲۶
اگر ’تحقیقی ذہنیت‘ کے ساتھ آنکھیںکھول کر چلنے کا یہ نتیجہ ہے تو تقلیدی ذہنیت ہی بھلی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ صوفی وملاّ کب پائے جاتے تھے، کہاں پائے جاتے تھے!
(تیغِ) جگردار
’’جگررکھنے والی، مضبوط۔‘‘ ص۔ ۲۶
’جگر رکھنے والی تلوار‘ ایک مہمل بیان ہے، درست مطلب: تیزاور چمکتی تلوار جس کی کاٹ کبھی کم نہ ہو۔
ماہِ تمام
’’مراد روحانی روشنی ۔‘‘ ص۔ ۲۷
صحیح مراد: اصلِ جمال، منبعِ کمالات، ہدایت ورحمت
عالمِ من وتو
’’زندگی کی عام کیفیت جس میں انسان اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو الگ الگ تصور کرتاہے۔‘‘ ص۔ ۲۸
اس سطحِ فہم تک اُتر آنے کی وجہ سے شعر کی تشریح میں ڈاکٹر صاحب کو بے معنی بات لکھنی پڑی کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مجھے اپنی تجلیات اس طرح دکھائیں کہ میری اور اس کی ذات ایک ہوگئی‘‘ ص۔ ۲۸
استغفر اﷲ، دینی نقصان تو جو ہواسو ہوا، شعر غارت ہو کر رہ گیا۔ بہرکیف صحیح اورنسبتاً مکمل مطالب درجِ ذیل ہیں:
۱۔ ’میں‘ اور ’تو‘ کی دنیا
۲۔ کثرت اور امتیاز کا عالم، ماسویٰ اﷲ کا جہان
۳۔ عقل کی دنیا جہاں چیزیں انفرادی تعین اور تشخص میں محصور ہیں اور اس ہمہ گیر وحدت سے محروم ہیں جوشرطِ وجود ہے، بلکہ خود وجود۔
۴۔ عالمِ فراق
۵۔ خیال، اعتبار اور وہم کا ایجادکردہ عالم
۶۔ ذہنی اور علمی تعینات اور تحدیدات
کرشمہ سازی
’’حیرت کامقام، معجزاتی کیفیت۔‘‘ ص۔ ۳۹
حیرت ہے کہ فعل کو مقام اور کیفیت کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ کرشمہ سازی یہاں طلسم بندی کے معنی میںہے، یعنی ظاہر بہت کچھ ہے مگر حقیقت کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ظہورِ جمال کا مطلب بھی نکلتا ہے جومحبوب کی طرف اشارہ تو کرتا ہے لیکن اُس تک پہنچنے نہیں دیتا، یعنی ایسا اظہار جو اخفا کو برقرار رکھے۔
علم
’’مراد حواس کا علم جو دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے عقلی علم کہا جاتاہے۔‘‘ ص۔ ۵۷
حواس کاعلم، عقلی علم ہے؟ یعنی محسوسات اور تصوراتِ محض ایک ہیں! نہایت حیرت انگیز۔ یہاں علم سے مراد ہے علمِ شریعت یاعلمِ ظاہر۔
استغنا
’’لفظی مطلب: فارغ ہونا۔ مراد کم از کم ضروریات رکھنا، قناعت ۔‘‘ ص۔ ۵۸
استغنا کا مطلب ہے، دنیا ومافیہا یعنی ماسویٰ اﷲ سے بے نیازی، فقر۔
جذب ومستی
’’جذبۂ عشق جوانسان کا جوہر ہے اور جس سے جبریل (اور فرشتے) محروم ہیں۔‘‘ ص۔ ۵۸
سخت عامیانہ مفہوم ہے۔ جذب، عشق کی وہ حالت ہے جو مقصود کو پانے کی لگن سے پیدا ہوتی ہے، اور مستی وہ کیفیت ہے جو مقصود کو پاکر حاصل ہوتی ہے۔ حصول کا دائرہ خواہ کتنا ہی وسیع ہو جائے مقصود اس سے ماورا رہتا ہے۔ اس لیے جذب بھی مستقل ہے اور مستی بھی۔
طواف
’’اس (خدا) کے اردگرد پھرنا۔‘‘ ص۔ ۵۸
اﷲ کی ذات کوئی وجودِ محدود نہیں ہے۔ اس لیے اس کے اردگرد کا تصور خطرناک غلطی ہے۔ یہاں مراد ہے عرش کا طواف۔
قیصر
’’سیزر کی بگڑی ہوئی شکل۔‘‘ ص۔ ۵۹
سیزر کا معرب نہ کہ بگڑی ہوئی شکل۔
گوہرِ فردا
’’وہ موتی جو مستقبل میں بیش قیمت ثابت ہوگا۔‘‘ ص۔۶۳
صحیح مطلب: مستقبل کا موتی یعنی گوہرِ مراد۔
خس وخاشاک
’’تنکے۔‘‘ ص۔ ۶۴
صحیح مطلب : ۱۔ کوڑا کرکٹ،۲۔ بے حقیقت لوگ جو دنیاکے گھورے پر پلتے ہیں، گرے پڑے بے وقعت دشمن، ۳۔ پست فطرتی کے مظاہر
سنائی کے ادب
’’ادب کے یہاں دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ سنائی کاکلام اور  ۲۔سنائی کا احترام، چنانچہ اس سے شعر میں بھی دو مفہوم پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۶۷
جہاں واقعی دو مفہوم ہوتے ہیں وہاں تو خواجہ صاحب ایک بلکہ آدھے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور جہاں کسی دوسرے مفہوم کا شائبہ تک نہیں ہوتا وہاں دومفہوم برآمد کر لیتے ہیں۔ ’سنائی کاکلام‘ ایک زبردستی کا مطلب ہے۔ اس شعر میں اس کا کوئی قرینہ موجودنہیں۔
حرفِ راز
’’راز کی باتیں، حیات وکائنات کے راز۔‘‘ ص۔ ۷۰
حرفِ راز، خدائی راز ہے، یہ فقط حیات وکائنات کے راز نہیں ہے بلکہ اس میں الوہیت کے اسرار بھی داخل ہیں۔نفسِ جبریل کی آرزو اسی لیے کی گئی ہے۔
نفسِ جبریل
’’جبریل جتنی طویل زندگی۔‘‘ ص۔ ۷۰
فقرہ بھی غلط اور مطلب بھی نادرست۔ صحیح مفہوم ہے جبریل کی قوتِ اظہار۔ یہاں ان کا روحِ الامین یعنی امینِ حقائق ہونا محذوف ہے۔ نفس سے زندگی مراد لے کر ایسی ہی تعبیر تک پہنچا جا سکتا ہے کہ:
’’اس شعر میں اقبال بتا رہے ہیں کہ ملت سے عشق کی وجہ سے انھوں نے حیات وکائنات کے لیے ایسے بے شمار اسرار سیکھ لیے ہیں جنھیں مختصر عمر میں بتانا ممکن نہیں۔‘‘ ص۔ ۷۰
سرِعیاں
’’وہ راز جو چھپایا گیا ہو مگر اسے ظاہر کرنا مقصود ہو۔‘‘ ص۔ ۷۴
صحیح مطلب: کھلا ہوا بھید، وہ شے جس کی صور ت معلوم ہو اور حقیقت نامعلوم، وہ حقیقت جس کا مخفی ہونا ظاہر ہو۔
بے نیشی
’’یہاں مراد ہے تیزی وتندی سے محرومی۔‘‘ ص۔ ۷۹
صحیح مطلب: کھٹک/ تڑپ / بے قراری کا نہ ہونا۔
نیش
’’زہر۔‘‘ ص۔ ۷۹
صحیح مطلب:  چبھن۔
جذب وشوق
’’عشق اور اس میں جذب ہو جانے والی کیفیت۔ ‘‘ ص۔ ۸۲
صحیح مطلب:  ۱۔ کشش اور لگن،  ۲۔ جذب، یعنی کششِ محبوب کا فعل ہے اور شوق اس کے نتیجے میں عاشق کے اندر پیدا ہونے والا حال۔
لطیفۂ ازلی
’’نفیس اشیا جو ہمیشہ سے ہیں۔ ‘‘ ص۔ ۹۷
خدا جانے یہ مطلب کیسے نکالا گیا ہے۔ بہرکیف لطیفۂ ازلی سے مراد ہے عشق کا ملکۂ اظہار جو ازلی ہے۔
نیاز
’’انکسار۔‘‘  ص۔ ۱۰۱
صحیح مطلب:  بندگی / محتاجی
جذبِ مسلمانی
’’اسلام سے والہانہ لگائو۔‘‘  ص۔ ۱۱۰
صحیح مطلب: ۱۔ حقیقتِ اسلام اور اس کی کشش جو بندے کی عقل، ارادے اور طبیعت کو اﷲ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے،  ۲۔  اسلام کا مستقل حال بن جانا۔  ۳۔ حق الیقین
رہروِ فرزانہ
’’دنیا کی زندگی گزارنے والا دانا شخص۔‘‘  ص۔ ۱۱۰
صحیح مطلب: ۱۔ عقل مند اور ہوشیار مسافر،  ۲۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے عقل پر انحصار کرنے والا۔
آستاں
’’عرشِ خداوندی میں داخلے کا مقام۔‘‘  ص۔ ۱۱۵
یہ مطلب کس طرح اخذ کیا گیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
نوائے پریشاں
’’منتشر خیالات، رنجیدہ جذبات ۔‘‘  ص۔ ۱۳۹
صحیح مطلب:  بے ربط کلام، نامربوط گفتگو جو نشے میں سرزد ہوتی ہے۔
فریب خوردۂ منزل
’’یہ غلط فہمی کہ منزل آگئی ہے۔‘‘  ص۔ ۱۷۲
صحیح مطلب:  منزل کے فریب میں مبتلا،منزل کے تصور پر فریفتہ۔
موجود
’’جو کچھ حاضر ہے۔ وجود میں آئی ہوئی اشیا، کائنات۔‘‘  ص۔۲۰۶
سب غلط، صحیح مطلب: وجودِ حقیقی، اصل وجود، موجودِ مطلق
شعور وہوش وخرد
’’تینوں الفاظ یہاں تقریباً مترادفات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۲۱۰
صحیح صورتِ حال یہ ہے کہ یہ تینوں ’انا‘ کی تعمیر اور حفاظت کرتے ہیں۔ شعور ’میں‘ کو ’وہ‘ پر غالب رکھتا ہے۔ ’ہوش‘ اس کو اپنے مقصود پر نثار نہیں ہونے دیتا اور ’خرد‘ اسے ایسے امتحان میں پڑنے سے روکتی ہے جس میں اس کے تصور کردہ نقصان کا اندیشہ ہو۔
دمِ عارف
’’عارف کی زندگی۔‘‘  ص۔ ۲۳۷
صحیح مطلب:  عارف کا کلام / تصرف
نور وحضور وسرور
’’اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اس قرب سے حاصل ہونے والا دل کا نور اور لطف۔‘‘  ص۔ ۲۴۵
صحیح مطالب: ۱۔ عشق کے تین مرحلے۔ دل کی روشنی، محبوب کا سامنا، عشق کا نقطۂ کمال اور اس کاحال
۲۔ معرفت کے تین مرحلے: حق کی نشانیوں کا مشاہدہ، حسن کا مشاہدہ، تکمیلِ معرفت اور اس سے پیدا ہونے والا اطمینان۔
۳۔ قلب کے تین مرحلے: ہدایت، معرفت، عشق۔
۴۔ خیر، حق، اور جمال کی نسبت کاظہور
۵۔ ’نور‘ = نفس کے تزکیے کا پھل + ’حضور‘ = قلب کی صفائی کا نتیجہ+ ’سرور‘ = نفس کی نورانیت اور دل کی حضوری سے پیدا ہونے والا حال۔
سرخوش
’’بے انتہا خوش۔‘‘  ص۔ ۲۴۵
پوری ترکیب درج کرنی چاہیے تھی۔ سرخوش وپرسوز۔ اس کا مطلب ہوگا:  ۱۔ عشق کی مستی اور حرارت سے معمور۔  ۲۔ عاشقِ کامل، جس کی خوشی بھی عشق کی دین ہے اور دردبھی۔ جسے عشق ہی سیراب کرتا ہے اور عشق ہی پیاسا رکھتا ہے۔
سوز وتب
’’جلن اور تپش۔ ‘‘ ص۔ ۲۴۵
یہاں بھی پوری ترکیب کو کھولنا چاہیے تھا۔سوز وتب ودرد وداغ۔
’سوز‘ = آرزو + ’تب‘ = جستجو + ’درد‘ = آرزو کا منتہیٰ + ’داغ‘   = جستجو کا منتہا۔ یعنی شدید آرزو اور اس کے ساتھ یہ یقین بھی کہ اس آرزو کا پورا ہونا محال ہے، اور سخت جستجو اور اس کے ساتھ یہ یقین بھی کہ اس جستجو کا بارور ہونا ممکن نہیں۔
ممکنات
’’انسانی صلاحیتوں کے امکانات۔‘‘  ص۔ ۲۵۲
مفہوم اتنا غلط ہے کہ جس فقرے میں بیان ہواہے وہ فقرہ بے معنی ہو کررہ گیا ہے۔ انسانی صلاحیتوں کے امکانات! یعنی چہ! صحیح مطلب: مخلوقات، موجودات جن کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور نہ ہونا بھی۔ اقبال کے ہاں عام طور سے ممکنات سے وہ موجودات مراد ہوتے ہیں جن کا وجود بھی حقیقی ہے اور عدم بھی۔
دمِ جبریل
’’جبریل کی زندگی۔‘‘   ص۔ ۲۵۵
صحیح مطلب:  ۱۔ خدائی فیضان (Divine Effusion)  ۲۔ عشق کا مبدا
دلِ مصطفی (صلی اﷲ علیہ وسلم)
’’آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا جذبہ۔‘‘  ص۔ ۲۵۵
صحیح مطلب:  ۱۔ خدائی فیضان کی قبولیت کا کامل ملکہ   ۲۔ عشق کامنتہا
نقطۂ پرکارِ حق
’’سچائی کا مرکز جس کے اردگرد پرکار گھومتی ہے۔‘‘   ص۔ ۲۶۴
عجیب وغریب فقرہ ہے۔ سیدھا سا مطلب تھا، حق کے دائرے کا مرکز!
وہم وطلسم ومجاز
’’حقیقت سے دور، خیالی اور توہماتی۔‘‘  ص۔ ۲۶۴
دیکھے ایک اہل شارح ان اصطلاحات کو کس طرح کھولتا ہے:
’’وہم سے یہاں وہ شے مراد ہے جس کی کوئی اصلیت (قیمت) نہ ہو۔ طلسم سے وہ شے مراد ہے جس کاظاہر کچھ ہو باطن کچھ ہو، یعنی دھوکا۔ مجاز سے وہ شے مراد ہے جس کی کوئی حقیقت (بنیاد) نہ ہو۔ وہم یقین کی ضد ہے۔ طلسم، صداقت کی ضد ہے اور مجاز، حقیقت کی ضد ہے۔‘‘ (شرحِ بالِ جبریل، یوسف سلیم چشتی، ص ۵۰۳، ۵۰۴)
بات یہ ہے کہ کسی چیز کے غیر حقیقی ہونے کے بھی کچھ درجات ہوتے ہیں، یہ الفاظ ان درجات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۔  ’وہم‘ یعنی موہوم وہ شے ہے جو صورت کے اعتبار سے غیر حقیقی ہے۔
۲۔  ’طلسم‘ وہ شے ہے جو صورت کے اعتبار سے بھی غیر حقیقی ہے اور معنی کے اعتبار سے بھی۔
۳۔  ’مجاز‘ وہ شے ہے جو معنی کے اعتبار سے غیر حقیقی ہے۔
تب وتاب
’’چمک دمک، اضطراب ۔ ‘‘ ص۔ ۲۷۸
صحیح مطلب:  حرارت اور روشنی، گرمی اور طاقت
انفس
’’نفس کی جمع، سانسیں، مراد زندگی۔ ‘‘ ص۔ ۲۸۴
یہ ایسی غلطی ہے جو بھولے سے سرزد ہو جائے تو بھی آدمی کو بے اعتبار بنا سکتی ہے۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ کوئی صاحب ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ’انفس‘ کا مطلب ’سانسیں‘ اور ’زندگی‘ سمجھتے ہیں!!
فتوحات
’’مراد کامیابیاں (طنزیہ استعمال کیاگیا ہے)۔‘‘  ص۔ ۲۸۸
صحیح مطلب:  ۱۔ نتائج، حاصلات،  ۲۔ تحفے۔
بے رنگ
’’رنگ کے بغیر، ہر حال میں ایک ہی رنگ رکھنے والی، بے تعصب۔‘‘  ص۔ ۳۴۷
صحیح مطلب:  غیرمحدود، بے تعین
حرفِ محرمانہ
’’واضح بات، سمجھ میں آنے والی بات۔‘‘  ص۔ ۳۵۳
صحیح مطلب:  اندر کی بات، عارفانہ بات
سیمابی
’’پارے کی طرح مضطرب۔‘‘  ص۔ ۳۵۷
صحیح مطلب: پارے کابنا ہوا۔
مسحورِ غرب
’’مغرب کے طور طریقوں کے سحر میں آنا۔‘‘  ص۔ ۳۶۶
صحیح مطلب:  جس پر مغرب کا جاود چل گیاہو۔
مصلحت
’’نیک تجویز، اچھا مشورہ۔‘‘  ص۔ ۳۷۲
صحیح مطلب:  خوبی، خیر
گیاہِ بام
’’چمکتی ہوئی گھاس، صاف نظر آنے والی گھاس۔‘‘  ص۔ ۳۷۵
صحیح مطلب:  اونچی اور گھنی گھاس
دیارِ عشق
’’عشق کی زمین، عشق کی حدود میں واقع علاقہ۔ عشق کا علاقہ لامحدود ہے کیوں کہ اس میں رنگ، نسل اور قومیت کی حدود نہیں ہوتیں، مراد پوری دنیا۔‘‘  ص۔ ۳۸۷
صحیح مطلب: عشق کی اقلیم، عاشقوں کا جہان۔

مشتِ نمونہ کے طورپر اتنے اندراجات کافی ہیں۔
میری رائے میں یہ کتاب خواجہ محمد ذکریا صاحب کی اقبال شناسی کی صحیح ترجمانی نہیں کرتی۔ کاش اگلی اشاعت سے پہلے اس پر اچھی طرح سے نظرِ ثانی ہوجائے۔

Related

کلیاتِ اقبال 5826486035960001632

Post a Comment

emo-but-icon

Follow Us

Hot in week

Recent

Featured

Comments

[Iqbal Predictions][slider][#fc0000]

Connect Us

item