اقبال- تصورِ زمان و مکاں پر ایک گفتگو
احمد جاوید ضبط و ترتیب: طارق اقبال مابعد الطبیعی مباحث یا تو کسی دعوے سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی دعوے تک پہنچنے کے لیے۔ پہلا طریقۂ کار فکر...

http://spiritualityofpakistan.blogspot.com/2015/05/blog-post_31.html
احمد جاوید
ضبط و ترتیب: طارق اقبال
مابعد الطبیعی مباحث یا تو کسی دعوے سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی دعوے تک پہنچنے کے لیے۔ پہلا طریقۂ کار فکر کی دینی روایتوں میں اختیار کیا جاتا ہے جب کہ دوسرا فلسفۂ مابعد الطبیعیات میں۔ فکر کی دینی روایت میں عقل کا کردار اک گو نہ مرکزیت رکھنے کے باوجود لامحدود ہوتا ہے نہ فیصلہ کن، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ شعور جو ان مباحث کے مقابل ہوتا ہے، اس کی بناوٹ فلسفیانہ معنی میں عقلی نہیں ہوتی، یہ روایت تحقیقِ حقائق کا جو مخصوص اور متعین اسلوب رکھتی ہے اُس میں نتائج کی تشکیل میں ایک اہم عنصر وجدان کا ہوتاہے جو دراصل ایک خاص معنی میں عقل کے منطقی ہوجانے کا ہی نام ہے، تاہم عقل کا منطقی ہوجانا کوئی سادہ عمل نہیں ہے۔ اس کا ایک پیچیدہ پراسس ہے جو شعور کی اُن سطحوں پر کار فرما ہوتا ہے جو ارادی نہیں ہیں، اور اُن کے مشمولات، فکر کے لیے درکار مواد سے مماثلت یا کم از کم ایسی مشابہت نہیں رکھتے جو چیزوں میں ہم نوعی کا رنگ پیدا کرتی ہے۔ اگر clinical اپروچ کا مطالبہ نہ کیا جائے تو یہ بات قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے کہ یہ مشمولات اپنی حسی جہت میں بھی حواس کے مُعطیات سے نوعاً مختلف ہیں۔ یہ اختلاف یا امتیاز محض استدلال، ادراک اور نفی و اثبات کے معمولی حدود و شرائط ہی کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ چیزوں کو اُن کے فوری تعینات سے منقطع کیے بغیر انھیں اس طرح reconstruct کرتا ہے کہ شے معلوم، علم بالحواس کی عائد کردہ قیود سے تجاوز کرکے بھی اپنی actualization کی وہ وضع بعینہ برقرار رکھتی ہے جو اثباتِ حسی کے عمومی عمل سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چیزوں کی یہ reconstruction جس کے نتیجے میں اُن کی realization، اُن کی actualization پر غالب آجاتی ہے، noumenal نہیں ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ مابعد الطبیعی فکر، صورت و حقیقت کی دوئی کو مستقل مان کر شے کی موجودیت اور معلومیت کے اٹل امتیاز کو قبول کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کیوںکہ حقیقت کو اپنے اثبات کے لیے جو تنزیہ درکار ہے اُس میں صورت ایک سلبی حوالہ ہے نہ کہ متوازی۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شیٔ محسوس صرف صورت ہے، حقیقت نہیں۔ یعنی حقیقت کے لیے جو تنزّہ (transcendence) لازمی ہے، وہ دائرۂ محسوسات میں نہیں سما سکتا۔ Thing A چاہے Thing AB بن جائے، حقیقت کا container نہیں بن سکتی، رہے گی صورت ہی۔ حقیقت کا موجود ہونا اُس کی self containment سے عبارت ہے اور اُس کی معلومیت self- disclosure پر مبنی ہے۔ بودن و معلوم گشتن کا یہ امتیاز ناگزیر ہونے کے باوجود حقیقی نہیں ہے بلکہ اعتباری (اور اس کی ناگزیری بھی تمام تر واقعیت رکھنے کے باوجود نفسِ حقیقت کی رو سے اعتباری ہی ہے)۔
اس اصول کی روشنی میں اگر ہم Time-Space کے مسئلے کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حقیقت اور اس کی کثیر المراتب نسبتوں کے تحقّق کی ہر نوع میںادراک کی عنصری بناوٹ اور ذہنی وضع یکسانی کے ساتھ برقرار رہتی ہے مگر مدرکات اور اُن کے سلبی و ایجابی حدود منقلب ہوجاتے ہیں۔ حقیقت اپنے تحقق کے ہر مرحلے پر بہت سے موجود مدرکات اور ان کی ترکیبی ہیئت کی محویت کا تقاضا کرتی ہے یعنی ادراک و اثبات کی اس سطح پر صورت و حقیقت کے وہ مشترکات جن کے بغیر خود علم محال ہے، اپنی اضافیت کو منکشف کرتے ہیں اور ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پہنچ کر ان میں سے وہ امور ساقط ہوجاتے ہیں جن سے گزشتہ دائرے میں ان کی ماہیت متعین ہوتی تھی، یا باالفاظِ دیگر لوازمِ ادراک اور شرائطِ وجود جس وصفی نہائیت پراستوار ہیں، وہ دوسرے دائرے میں منتقل نہیں ہوتی۔ واقعیت اعتبار بن جاتی ہے اور وصف، موصوف کی تبدیلی سے ایک نئے وجودی pattern میں ڈھل جاتا ہے۔ Time-Space وجود کی ایک خاص حالت اور ادراک کی ایک مخصوص صورت کے لوازم ہیں۔ وجود کی سطح اور ادراک کا معروض بدل جائے تو ان کا لزوم ممکن ہے کہ باقی نہ رہے، یا اس کی نوعیت میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوجائے جو اس کی بنیادی تعریف کو بدل کر رکھ دے۔ قبلیت، بعدیت، ظرفیت اور حرکت ضروری نہیں کہ وجود کے دیگر مراتب میں بھی اسی طرح کار فرما ہوں جس طرح Time-Space کے موجودہ تعین میںہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ Time-Space کی signifying حیثیت حقیقت کے تمام ظہوری مراتب میں لازماً برقرار رہتی ہے تاہم مابعد الطبیعی فکر کے مطابق ان کی دلالت، مدلول کے تابع ہونے کی وجہ سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ وجود کے اصولی طور پر دو مراتب ہیں: حادث و محدود اور قدیم و لامحدود۔ پہلے مرتبے میں Movement-Sequence کی حکومت ہے اور دوسرے میں Change lessnes-Spontenity وجود کی فضا کو تشکیل دیتی ہے۔ چونکہ Time-Space وجود کے پورے ماحول کا نام ہے لہٰذا وجود کی وصفی ماہیت یعنی اُس کی ظہوری حالت اور تعین کی تبدیلی نہ صرف یہ کہ Time-Space پر وارد ہوگی بلکہ اُن کی ذاتی بناوٹ کو بھی تبدیل کرکے اس وجودی امتیاز سے ہم آہنگ کرے گی۔
اندریں صورت مابعد الطبیعی فکر کا مقدمہ وجود کی اصالت، ظہور کا تنوع اور Time-Space کی اضافیت سے ترکیب پاتا ہے۔ اس مقدمے کے تینوں اجزا آپس میں ایک ایسی عینیت کے حامل ہیں جو اپنی actual جہت میں مطلق ہے مگر اضافیت کے ساتھ، اور اضافی ہے مگر مطلقیت کے ساتھ۔
گویا قدیم و لامحدود کے وجودی اور ایجابی سیاق و سباق میں Time-Space ایک واسطے کی حیثیت سے یا بعض علمی اقتضاء ات کی تکمیل کے لیے ایک حوالے کے طور پر تو بہرحال ہوتے ہیں مگر ایک ایسی نسبت کے ساتھ جو انھیں عالمِ حدوث و تحدید میں حاصل نہیں تھی۔ یہاں اُن کا کردار مؤثر نہیں ہوسکتا کیوںکہ اسبابِ تاثیر اِس مرتبے میں منہا ہوجاتے ہیں۔ ماہیت کی تبدیلی سے یہی مراد ہے۔
مسلمانوں کی علمی و عرفانی روایت سادہ لفظوں میں کہا جائے تو توحیدی یا خدا مرکز ہے۔ اپنی اطلاقی اور کونیاتی جہت میں اس روایت کو اپنے مرکز سے جڑے رہنے کے لیے عقلی سطح پر جس مسئلے کا شدت سے سامنا کرنا پڑا وہ یہی Time-Space کا مسئلہ ہے۔ وحدتِ حقیقی اور اُس کے محتویات کے اثبات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ہے Time-Space کی مطلقیت۔ اسلامی فکر، عقلی ہو یا عرفانی، اِس رکاوٹ کو عبور کرنے کے کچھ اسالیب رکھتی ہے۔ اُن کی تفصیل میں جانے سے پہلے مناسب ہوگا اگر ہم اِس روایت کے بنیادی دھاروں پر کچھ ضروری گفتگو کرلیں تاکہ ابتدا ہی میں یہ واضح ہوجائے کہ یہ مسئلہ اور اس کی مخالفانہ شدت کا احساس و ادراک ہر ڈسپلن میں مشترک ہے، البتہ اِس سے عہدہ برا ہونے کی صورتوں میں تنوع یا اختلاف پایا جاتا ہے۔
حقیقتِ وجود، جس تک پہنچنے کے لیے زمان و مکاں کی ماہیت کا تحقق ضروری ہے، مسلمانوں کے لیے تنزیہی ہے۔ خیال رہے کہ تنزیہی کا مطلب عقلی و ذہنی نہیں ہے کیوں کہ اس میں وجودِ خارجی کی نفی نہیں پائی جاتی۔ مسلم روایت میں تنزیہ اُس موجودیت فی الخارج کو کہتے ہیں جس پر کوئی حد و شرط وارد نہ کی جاسکے، حتیٰ کہ وجود کی بھی ۔۔۔۔۔ تنزیہ اور اُس کے ایجابی تقاضے، یعنی ٔاثباتِ خاص بذریعۂ نفیِ عام، کے تحت متقدمین میں زمان و مکاں کا موضوع کسی مرکزی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بعد میں جب اثبات کے حدود ذہن تک پھیلنے لگے اور نفی قدرے مبنی براستدلال ہوگئی تو صوفیا، متکلمین اور فلاسفہ نے اپنے اپنے منہاج کے مطابق ذہن و فکر پر ایک نظری اور مابعد الطبیعی پیرائے میں کلام کا آغاز کیا۔
مسلمانوں میں Time-Space کا تصور تین سطحیں رکھتا ہے: طبیعی، عقلی اور الٰہیاتی۔۔۔۔۔ طبیعی سطح پر مکاں مادی ہے اور زمانہ حرکتِ مکاں۔ اِس بات کے دو مطلب ہیں، مکاں ایک متحرک جسم ہے جس کی حرکت اپنی ذہنی اور خارجی صورت میں وقت ہے۔ اس کے جسم اور حرکت کی طرح، وجودی سطح پر زمان و مکاں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن میں ایک دوسرے سے تقدم کا سوال بے معنی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ زمانہ حرکت ہے اور مکاں اُس حرکت کا ظرف۔ عقلی سطح پر مکاں ظرفِ وجود ہے اور زمان، مقدارِ وجود۔ گو کہ یہ عقلی سطح کا پورا بیان نہیں ہے، وہ ہم آگے کریں گے، تاہم یہ وہ سطح ہے جہاں عقل حسّی معطیات پر حکم لگاتی ہے اور حقیقت کے محسوس ہونے کو اپنا بنیادی مفروضہ بنا کر آگے بڑھتی ہے۔ یہاں عقل کا یہ کردار محسوسات سے تجاوز کرکے بھی اپنی اساس میں حسّی ہی رہتا ہے، مثلاً زمان و مکاں ہی کے مسئلے کو لے لیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ وجود کی ورائے حواس جہت کا اثبات کرنے کے باوجود وہ موجود ہونے کی جس زمانی مکانی تعریف پر کھڑی ہے وہ اوّل سے آخر تک حسّی ہے۔ وجود کی containment اور historisization کا کوئی بھی تصور محسوسات کے دائرے ہی میں ممکن ہے اور عقل اس تصور کو زمان و مکان کے مسلّمے کی مدد سے تصدیق پذیری کے مراحل طے کرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عقلِ محض کی سطح ہے۔ یہاں مکاں، لامحدودیت اور زمان، لامتناہیت کی مختلف نسبتوں کے مظاہر ہیں۔ یعنی مکاں سے لامحدودیت اور زمان سے لامتناہیت کا فوقِ تجربی اثبات عقلاً ممکن ہو جاتا ہے۔ ہم اس بات کو نہیں چھیڑیں گے کہ ایسی لامحدودیت اور لامتناہیت جو زمان و مکاں کی مدلول ہو، ریاضیاتی اور منطقی تو ہوسکتی ہے، واقعی اور خارجی نہیں۔ تیسری سطح یعنی الٰہیاتی سطح پر Time-Space اپنی آخری ممکن الاثبات حیثیت یعنی وجود کی نسبت کے طور پر بھی معدوم ہیں۔ بقولِ اقبال، ’’نہ ہے زمان نہ مکاں لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ۔‘‘ ۱؎ چونکہ وجود کے الٰہیاتی مرتبے میں نسبت بھی ساقط ہے لہٰذا یہاں time-space کا ہونا محال ہے۔
اب ہم اسلامی روایت کے تین بنیادی عناصر یعنی کلام، فلسفے اور تصوف میں دیکھیں گے کہ ان کا منہاج کیا ہے اور اُس منہاج کی روشنی میں time-space کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ بات شروع کرنے سے پہلے یہ تنبیہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی علمی اور عرفانی روایت اپنے ہر جز میں نزولی اور استخراجی ہے۔ حقیقت مقدمہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔
متکلمین کا منہاج یہ ہے کہ حقیقت، وحی یعنی خود اپنے بیان کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے اور عقل کی مدد سے سمجھی جاتی ہے۔ گویا حقیقت، بیانِ حقیقت، فہمِ حقیقت اور استدلال مبنی بر فہم۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس منہاج کا مقدمہ ہے۔ حقیقت خود اپنے بیان کی رو سے قدیم اور لامحدود ہے لہٰذا عقل کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس سے کوئی ایسی چیز منسوب نہ کرے جس سے ان دو اوصاف پر ضرب پڑتی ہو۔ زمانہ حقیقت کو قدیم نہیں رہنے دے گا اور مکاں، لامحدود۔ اہلِ کلام جب اللہ کو لازمان و لامکاں کہتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ زمانی یعنی حادث نہیں ہے اور مکانی یعنی محدود نہیں ہے۔ اُن کے نزدیک زمان اصلِ حدوث ہے اور خود حادث ہے اور مکاں اصلِ تحدید ہے اور خود محدود ہے۔ حادث اور محدود کا قیام قدیم اور لامحدود کے ساتھ محال ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ حقیقت کا ذاتی تعین یعنی وحدت اس بات کی متقاضی ہے کہ موجودیت کے اُن قطبینی عوامل کی نفی کردی جائے جو موجودات میں ہم وجودی کی دلیل بنتے ہیں۔ خصوصاً زمان و مکاں چونکہ ایک مطلقیت رکھتے ہیں لہٰذا وجود کے الٰہیاتی مراتب میں جہاں کا اصو ل مطلق وحدت ہے، ان کا اثبات کچھ لاینحل مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
فلاسفہ یعنی مابعد الطبیعیات کو فکر و نظر کا موضوع بنانے والے طبقے میں عقل کا کردار، اہلِ کلام کے برعکس، ایک حتمی اور مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا منہاج حقیقت، تعقلِ حقیقت اور بیانِ حقیقت ہے۔ فلسفے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو عقل پر حکم نہیں بناسکتا، اس لیے مسلمانوں کی فلسفیانہ روایت میں بھی آخری حجّت عقلی ہی ہوتی ہے۔ وحی عقل کا قابلِ اعتماد معروض ہے لیکن اس کا content جس حد تک حقائق سے تعلق رکھتا ہے، فلاسفہ کی نظر میں لفظی نہیں بلکہ عقلی ہوتا ہے یا معقولات ہی کی تصدیق کرتا ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں حقیقت اور بیانِ حقیقت میں جزوی عینیت ہے، اور وہ بھی بیان میں نہیں بلکہ عقل میں پائی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ وحی حقیقت کے عموم کو ایک بیان کی صورت میں خاص کرتی ہے، عقل اِس تخصیص کو وسعت اور زیادہ قطعیّت دے کر اُس عموم سے نزدیک تر کردیتی ہے جو بیان اور فہمِ بیان کے مذہبی تلازم میں نہیں سما سکتا۔ فلاسفہ کا مقدمہ یہ ہے کہ حقیقت اصالتاً معقول ہے جس کی تائید وحی سے بھی ہوتی ہے۔ time-space حقیقت کے ذاتی اطوار ہیں لہٰذا وقت اور مادّے کا قدیم ہونا حقیقت کی وحدت کو مجروح نہیں کرتا اور اُسے لائقِ اثبات بناتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ تمام مسلمان فلسفیوں کا یہی مؤقف ہے لیکن اس کے باوجود ہم خود کو ایک محفوظ پوزیشن پر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدوثِ زمان کو جن فلاسفہ نے قبول کیا ہے وہ بھی درحقیقت قدمِ زمان ہی کے قائل ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں، سرِدست ہم اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ حدوثِ ذاتی اور حدوثِ زمانی کا فرق محض ایک ذہنی چیز ہے اس سے نفس الامر کا تحقق نہیں ہوتا۔
اس مبحث میں صوفیہ کے مؤقف کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تصوف کی علمی روایت فلسفہ و کلام کے نقطۂ کمال سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ وہ بڑے بڑے مسائل اس روایت میں بھی اُٹھائے گئے ہیں جو فلسفہ و کلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم صوفیہ حقائق کے تقابل میں شعور کے rational structure پر انحصار کرنے کی بجائے اس کی حسّی تشکیلات پر زور دیتے ہیں۔ reality as Such اور reality as a discource کا باہمی ربط، فلاسفہ و متکلمین کی طرح ان کا بھی موضوع ہے لیکن یہ حضرات اس ربط کو فہم و تعقل نہیں بلکہ ایک انفعالی تجربیت کے ذریعے سے دریافت کرتے ہیں جو حس و محسوس کی اِسی نسبت بین الطرفین پر قائم ہے جس سے ہم مانوس ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ صوفیانہ تجربے میں طرفین کی مغائرت واقعتا ناگزیر اور واجب الاثبات ہونے کے باوجود اعتباری ہے۔ مکمل انفعال جو علم الحقائق کی لازمی شرط ہے، اس کا حصول ایک طرف تو طرفین کی غیریت کا متقاضی ہے اور دوسری طرف عینیت کا۔ غیریت نہ ہو تو انفعال کا بیج ہی نہیں پڑ سکتا، اور عینیت نہ ہو تو اس کی تکمیل محال ہے۔ اس paradox کو حل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ غیریت اعتباری ہے اور عینیت حقیقی۔ صوفیہ نے اس طریقے کو کام میں لا کر علم الحقائق کے راستے میں آنے والی اُن رکاوٹوں کو گرانے میں خاصی کامیابی حاصل کی جنھوں نے اہلِ فلسفہ و کلام کو بے دست و پا کر رکھا تھا، مثلاً یہی مسئلۂ زمان و مکاں دیکھ لیں۔ فلاسفہ کو ان کی ازلیت و ابدیت کے اقرار پر مجبور ہونا پڑا اور متکلمین کے پاس اس کے سوا کوئی راستا نہیں رہ گیا تھا کہ وہ time-space کو عالمِ خلق سے اوپر کے مراتب میں سرے سے موجود ہی نہ مانیں۔ صوفیہ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ انھیں یہ مجبوریاں لاحق نہیں ہوئیں۔ ان کا موضوع ہے: حقیقت باعتبارِ تعینات، یا بالفاظ ِ دیگر مراتبِ ظہور ۔۔۔۔ اس موضوع میں ایسی وسعت ہے کہ time-space کے دائرے کو جتنا چاہے بڑھا لیا جائے، رہتا اس کے اندر ہی ہے۔ یعنی time-space بلحاظِ ماہیت و فعلیت، ظہور کے ایک خاص درجے سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ زمان و مکاں، وجود کی شرط نہیں بلکہ ایک نسبت ہے اور اس حیثیت میں اُس کا حکم بدلتا رہتا ہے۔ اس کا درجہ ایک سلبی حوالے کا سا ہے جو اعتبار کے اصول کو متعین کرتا ہے اور تحققِ حقیقت کی حرکتِ دوری یعنی تشبیہ تنزیہ، تنزیہ میں تشبیہ کا درمیانی وقفہ/ عرصہ اسی پر مدار رکھتا ہے۔ اپنے ان حدود میں صوفیہ کے نزدیک زمان غیر متناہی ہے مگر مظہرِ کثرت ہے، جب کہ مکاں مظہرِوحدت ہے مگر محدود ہے۔ یہ دونوں، ازروئے ماہیت، ایک دوسرے پر over lap کرتے ہیں، یعنی زمان کی غیر متناہیت مکاں کے حوالے بغیر متحقق نہیں ہوسکتی اور اسی طرح مکاں کی محدودیت بھی ایک گہرے معنی میں زمانی ہے۔ یہی حدوث کی حقیقت ہے کہ time space یک اصل اور ہم احتوا ہو کر درجۂ امتیاز اور مرتبۂ فعل میں باہم معرّف بنیں اور ایک دوسرے کے حدود و قیود کو نہ صرف یہ کہ واضح کریں بلکہ انھیں اپنے لیے بھی قبول کریں۔
تصوف جس علم الحقائق کا وارث ہے وہ دو ایسے مراتب کو محیط ہے جن میں سے ایک عالم کی جہت سے اس کے علمی تعین کی ایسی تشکیل کرتا ہے جو مفیدِ اثبات ہو اور بعض پہلوئوں سے قابلیتِ نفی بھی رکھتی ہو۔ اس کا دوسرا مرتبہ معلوم کی جہت سے ہے، جہاں حقیقت معلومہ وجوداً متعین ہوتی ہے۔ اس تعین میں وجود حقیقی ہے اور مابہ التعیین اعتباری۔ صوفیہ کو آغاز ہی میں یہ سہولت میسر آگئی کہ صحت فکر و استدلال کے تمام منطقی لوازم و معیارات کو ملحوظ رکھتے ہوئے حقیقت کے تقابل میں انھوں نے ایک ایسا paradox وضع کیاجس کی درست تفہیم کے بغیر حقیقت کا کوئی تصور قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جس سہولت کا ہم نے ابھی ذکر کیا اس کا ایک اظہار time-space کے مسئلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک صوفی کے لیے یہ سمجھنے اور ماننے میں کوئی منطقی الجھن نہیں ہے کہ زمان و مکاں کا تعلق ’’موثر ہونے یا اثر پذیر ہونے‘‘ کی جہت سے اقلیم تشبیہ ہی سے ہے اور تشبیہ ضرورتِ ادراک ہے، ضرورتِ وجود نہیں۔ یہ خیال رہے کہ تشبیہ محض طبیعیات تک محدود نہیں ہے بلکہ مابعد الطبیعی امور بھی اس میں داخل ہیں۔ تشبیہ کا اصول یہ ہے کہ صورت اپنے امتیاز کو محفوظ رکھتے ہوئے معنی پر ایسی دلالت کرے جو طرفین میں لزومِ عینیت کا شبہ نہ پیدا کرے۔ چونکہ ادراک اپنی ہر نوع میں بامعنی صورت کے حصول ہی کا نام ہے لہٰذا مدرکات حقائق پر دال تو ہیں لیکن نفسِ حقیقت سے ان کی مغائرت مستقل ہے اور حقیقت کے ذاتی مرتبے میں یہ اپنی ہر نسبت کے ساتھ ساقط ہیں۔ اسی لیے جب صوفیہ حقیقت کے ورائے ظہور مراتب میں زمان ومکاں کی نفی کرتے ہیں تو اس سے کوئی منطقی خلل بھی واقع نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود مدارجِ ظہور کی تبدیلی سے بھی شے کا وصف نہائی منقلب ہوجاتا ہے۔
مختصر یہ کہ متقدمین میں حقیقت کا تنزہ مانع تھا زمان و مکاں کی ماہیت متعین کرنے سے۔ وہ حضرات اس امتیاز کو ایمان کے فطری اسلوب میں حل کرچکے تھے اور یہ اسلوب اپنے بیان میں مجروح ہوجاتا۔ متوسطین نے حقیقت کی تنزیہ کو برقرار رکھتے ہوئے تشبیہ کو اس کی طرفِ توازن بنایا تو زمان و مکاں کی ایک اضافی معنویت پر غور کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ گویا متقدمین کا مسئلہ ایمان تھا تو متوسطین کا اثبات۔ متاخرین نے ضروریاتِ ادراک کو ترجیح دیتے ہوئے تنزیہ کو تشبیہ میں کھپا کر حقیقت کو ایک نیم تجسیمی جہت دے دی، جس کی وجہ سے زمان و مکاں حقیقت اور ناظرِ حقیقت کے درمیان ایک اٹل برزخ بن گئے اور تحقق حقائق کی تمام سرگرمیاں اسی مدار کے گرد گھومنے لگیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ حقیقت کا خارجی تعین اپنی کلیت کے ساتھ جب ذہن میں منتقل کیا جانے لگا، یا ذہن کے خلقی مطالبات کی تکمیل کے لیے صرف ہونے لگا تو زمان و مکاں بطور ایک episteme کے ہر مرحلۂ اثبات پر ناگزیر ہوگئے، اور نتیجتاً تنزیہ غیر حقیقی یا کم از کم غیر متعلق ہو کر رہ گئی۔
اقبال اپنی بنیادی خصوصیات کی وجہ سے متاخرین میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا تصور زمان و مکان جو دراصل ان کے فلسفۂ خودی کا ایک جزو ہے، اس کی تشکیل میں جدید طبیعیات، نفسیات اور حیاتیات سے پھوٹنے والے فلسفے کا کردار بہت مرکزی اور بنیادی ہے۔ اقبال گو کہ اس سے مابعد الطبیعی اور اخلاقی نتائج نکالتے ہیں تاہم خودی کی طرح یہ تصور بھی اپنی نوع میں انسانی اور تشبیہی ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا شمار ان جدید ترین مفکرین میں ہوتا ہے جو انا اور وقت کے کائناتی تلازم کو نہ صرف یہ کہ حقیقی سمجھتے ہیں بلکہ ذات کے الوہی مراتب میں بھی زمانیت کی کسی نوع کو کارفرما دیکھتے ہیں، اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج پر اہلِ مابعد الطبیعیات کی تشویش کو در خورِ اعتنا نہیں گردانتے۔
اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ یہ کہ اُن کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔ علامہ نے اپنے تمام بنیادی مباحث کی طرح مسئلۂ زمان و مکاں کو بھی اپنی شاعری کا ایک بڑا theme بنایا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطۂ نظر کو اقبال کا حتمی نقطۂ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟
کسی تفصیلی تجزیے میں جانے سے پہلے اگر ہم کوئی ایسا سبب تلاش کرسکیں تو بہتر ہوگا جس نے اقبال کی مجموعی فکر کو چند ناقدین کی رائے میں، جو ہمارے خیال کے مطابق نہ پوری درست ہے نہ پوری غلط، واضح طور پر دو خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ان کو جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کار فرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی رائے پر نظرِثانی کی اور بعض معاملات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دولختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریں گے۔ سرِدست مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورِ زمان و مکاں پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے جس میں تجزیے کے دوران میں پیش آنے والے اختلافات پر پیشگی توجہ نہ کی جائے۔
اقبال بعض فلاسفۂ متوسطین کی طرح زمانے کو قدیم تو نہیں کہتے مگر حرکت کو حقیقت کا جوہرِ ذاتی قرار دینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ مزید مشکل اُس وقت پیدا ہوجاتی ہے جب وہ اس خیال کا اثبات ذاتِ انسانی کو وقت کی اس جہت سے متعلق کرکے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسے مراتبِ الہیہ سے نسبت پیدا کرنے کے لیے درکار ہے یعنی دورانِ محض۔ کم از کم خطبات کی حد تک اقبال کے پیشِ نظر یہ بھی تھا کہ حقیقت زمان و مکاں تک پہنچنے کا وہ راستہ کس طرح ڈھونڈا جائے جس پر چل کر زمان و مکاں کی طبیعی تعریف اور مابعد الطبیعی تعبیر کو ایک کیا جاسکے۔ اس انداز نظر کا تجزیہ بہت ضروری ہے جو شے کی تعریف طبیعیات سے اخذ کرتا ہے اور تعبیر مابعد الطبیعیات سے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مرحلے پر اگر شاعر اقبال کی کمک فراہم نہ ہوتی تو ہم بری طرح فلسفی اقبال میں الجھ کر رہ جاتے۔ خطبات میں مختلف علوم کے حاصلات و غایات اور مقدمات و نتائج اکثر مقامات پر اس بری طرح خلط ملط ہیں کہ پڑھنے والا اتنا حیران ہوجاتا ہے کہ وہ متعین کرکے یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ الجھن کہاں واقع ہوئی ہے اور کیا ہے۔ جدید علمیات کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے اقبال زمان و مکاں کو وجود کی لازمی شرائط سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی فکر کے سیاق و سباق میں حقیقت کا زمانی مکانی ہونا ناگزیر ہے۔ دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اس ضرورت کا اطلاق دینی اخلاقی اور مابعد الطبیعی disciplines پر بھی کرنے لگتے ہیں۔ دینی فکر کی کوئی بھی قسم ہو اس میں غیب حقیقی اور مطلق ہے۔ یہاں حقیقت بر بنائے معلومیت واجب الاثبات نہیں ہے بلکہ بربنائے موجودیت۔ علاّمہ موجودیت اور معلومیت کے اس انتہائی امتیاز کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا اُسے رفع کرنے کی ایسی کاوش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقت پر اس کا مظہر بلکہ ذہنی مظہر غالب آجاتا ہے اور حقیقت کے علمی ہی نہیں ذاتی حدود بھی اسی سے متعین ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے غزالی مانیں گے نہ کانٹ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف علوم کی purity کے جو نمائندوں کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غزالی کا ورائے علم، یقین و اثبات ہو یا کانٹ کا یہ دعوا کہ حقیقت موجود ہونے کے باوجود ممتنع العلم ہے، مابعد الطبیعی مباحث میں اقبال کے لیے واضح طور پر بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں وہ کہیں شدت سے اور کہیں احتیاط سے گراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اُن کی شاعری ہے جس نے حقیقت کے معلوم ہونے کی بجائے موجود ہونے پر اصرار کیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اصرار کے لیے جو اخلاقی تحکم اور تخلیقی تخیلی درکار ہے وہ شاعری ہی میں فراہم ہوسکتا ہے۔ ہمیں غور سے دیکھنا پڑے گا کہ ایک ہی موضوع پر approach کا ایسا فرق جسے کسی دلیل سے رفع نہیں کیا جاسکتا اقبال کے ہاں کیا معنویت رکھتا ہے۔
اگر زمان و مکاں کے مسئلے پر focus کرکے دیکھیں تو بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ اس موضوع پر مفکر اقبال اور شاعر اقبال ہم رائے ہیں۔ خطبات اور شاعری متفق ہیں کہ زمانہ مختلف مراتب رکھتا ہے اور اس اختلاف کی ہر سطح حقیقی ہے۔ نیز موجودیت کا کوئی بھی درجہ ہو، زمانے کو وہاں سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری رائے میں یہ اتفاق اجمال میں ہے، تفصیل میں نہیں، اور ایسا ہونا فطری ہے۔ فلسفیانہ تفکر اور شعری تخیل اور اخلاقی اذعان میں ایسا اتفاق محال ہے جو انھیں جز بہ جز عینِ یکدیگر بنا دے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم خطبات میں اظہارپانے والے تصورِ زمان و مکاں کی تشقیق کریں گے اور پھر یہ کہ شاعری اس جز میں خاموش ہے یا متفق ہے یا مختلف۔ اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو یہ دیکھیں گے کہ خطبات یا شاعری میں اس مسئلے پر کوئی ایسی چیز تو نہیں ملتی جس سے دوسرا خالی ہو۔
۱۔ زمانہ ایک organic whole ہے (۱)
۲۔ زمانہ اشیا کے جوہرِ نہائی کا صورت گر ہے (۲)
۳۔ زمانہ شانِ خلق کا مظہر ہے: (۳)
۳۔ وجودِ حق کا زمانہ، زمانِ حقیقی ہے، جس میں رہ کر وہ serial time کو جز بجز تخلیق کرتا ہے (۴)
کائنات ایک آزاد تخلیقی آن ہے (۵)
۵۔حقیقتِ نہائی= دورانِ محض (۶)
۶۔ زمان بطورِ خط پر تنقید (۷)
۷۔ تغیر کی نوع (۸)
مندرجہ بالا اقتباسات اقبال کے تصورِ زمان کے تمام ضروری اجزا کا احاطہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس مسئلے کی حد تک اُن کے خیالات، خواہ شعر میں ظاہر ہوئے ہوں یا نثر میں، کسی قابلِ ذکر تبدیلی یا اختلاف پر دلالت نہیں کرتے۔ اُن کا بنیادی مؤقف شروع سے آخر تک ہر جگہ ایک ہی رہا۔ اُن کے فکر و خیال سے تفصیلی واقفیت رکھنے والوں کے لیے یہ یکرنگی بعض وجوہ سے خوش گوار ہونے کے باوجود قدرے غیر متوقع بھی ہے۔ تکنیکی مہارت اور وقوفی گہرائی میں رفتہ رفتہ ہونے والے ناگزیر اضافے کو نظر انداز کردیا جائے تو خطبات میں اقبال جس تصورِ زمان تک پہنچے ہیں وہ اصولاًـ وہی ہے جو پندرہ سولہ برس پہلے اسرارِ خودی میں بیان ہوچکا تھا۔
گردش گردون کردٰن دیدنی است
انقلابِ روز و شب فہمیدنی است
ای اسیرِ دوش و فردا در نگر
در دلِ خود عالمِ دیگر نگر
در گِل خود تخمِ ظلمت کاشتی
وقت را مثلِ خطی پنداشتی
بازبا پیمانہ ی لیل و نہار
فکرِ تو پیمود طولِ روزگار
ساختی این رشتہ را زنّار دوش
کشتہ نی مثلِ بتان باطل فروش
کیمیا بودی و مشتِ گل شدی
سرِّ حق زائیدی و باطل شدی
مسلمی؟ آزاد این زنار باش
شمعِ بزم ملّتِ احرار باش
تو کہ از اصلِ زمان آگہ ز نی
از حیاتِ جاودان آ گہ ز نی
تا کجا در روز و شب باشی اسیر
رمزِ وقت ازلی مع اللہ یاد گیر
این و آن پیداست از رفتارِ وقت
زندگی سرّیست از اسرارِ وقت
اصل وقت از گردشِ خورشید نیست
وقت جاوید است و خور جاوید نیست
عیش و غم عاشور و ہم عید است وقت
سرِّ تابِ ماہ و خورشید است وقت
وقت را مثلِ مکان گستردہ ئی
امتیازِ دوش و فردا کردہ ئی
ای چوبودم کردہ از بستان خویش
ساختی از دستِ خود زندان خویش
وقتِ ماکو اوّل و آخر ندید
از خیابانِ ضمیرِ ما دمید
زندہ از عرفان اصلش زندہ تر
ہستی او از سحر تابندہ تر
زندگی از دہر و دہر از زندگی است
لاتسبو الدہر فرمانِ نبی است
(۹)
ان اشعار سے وقت کے بارے میں مندرجہ ذیل تصورات اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ وقت اپنے ابتدائی اور عام تصور میں حرکتِ مکاں کے مترادف ہے۔
۲۔ وقت تجربی دائرے میں حرکت اور تغیر کا نام ہے۔
۳۔ دوش و فردا وقت کی مصنوعی تقسیم سے قائم ہونے والے مفروضے ہیں، ان کا وقت کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
۴۔ وقت کی حقیقت کو apprehend اور experience کیا جاسکتا ہے۔
۵۔ وقت اور خودی لازم و ملزوم ہیں۔
۶۔ وقت کو subjectivize کرکے ہی اس کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہے۔
۷۔ وقت کے phenomenal حدود تک محدود رہنے سے انسان کے داخلی اور وجودی امکانات پر بھی روک لگ جاتی ہے۔
۸۔ وقت serial نہیں ہے ورنہ علم کا کوئی جواز رہے گا نہ وجود کا۔
۹۔ زمان و مکاں کا پیمانہ فکر کا وضع کردہ ہے جو اُن کی حقیقت تک رہنمائی نہیں کرتا۔
۱۰۔ وقت اپنی متداول تقسیم میں ایک افقی چیز ہے جو حقیقت کا container تو کیا experience بھی نہیں بن سکتی۔
۱۱۔ انسانی خودی اپنی ماہیت میں وقت کی حقیقت سے ہم آہنگ ہے۔ وقت کا زمینی تصور اس کو بھی متاثر کرتا ہے۔
۱۲۔ آدمی اپنی ذات پر غور کرکے زمان کی مابعد الطبیعی جہت تک پہنچ سکتا ہے۔
۱۳۔ وقت کی phenomenal حد کو توڑے بغیر اللہ پر ایمان اور اُس کے ہونے کا اثبات بے معنی بلکہ محال ہے۔
۱۴۔ خود انسانی ارادے، اختیار اور آزادی کا تقاضا ہے کہ وقت حرکت و تغیر کے کسی جبری سسٹم سے عبارت نہ ہو۔
۱۵۔ وقت اپنی اصل میں حدوث سے نہیں بلکہ قدم سے مناسبت رکھتا ہے۔
۱۶۔ انسانی خودی اپنی اصل میں زمان کے الٰہیاتی مراتب کو apprehend کرنے کی خلقی استعداد رکھتی ہے۔
۱۷۔ عالمِ طبیعی میں وجود اور زندگی حقیقتِ وقت کے جزوی مظاہر ہیں۔
۱۸۔ وقت اپنی اصل میں مکانی نہیں ہے۔ یہ ان تمام مکانی objects سے ماورا ہے جو اس دنیا میں اُس کے محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۱۹۔ وقت مکان کی نسبت سے مقدارِ حدوث ہے، یہ نسبت رفع ہوجائے تو خود وقت اور اِس کے وجودی متعلقات قدیم ہیں۔
۲۰۔ جوش و فردا کا امتیاز اُس شعور کا پیدا کردہ ہے جو چیزوں کو مکانی terms میں دیکھتا ہے۔
۲۱۔ عالمِ صورت میں مکان زمان پر غالب ہے جب کہ عالمِ معنی میں یہ غلبہ زمان کو حاصل ہے۔ اسی لیے حقیقت اپنے مزاج میں مکانی سے زیادہ زمانی ہے۔
۲۲۔ اصل وقت جس کا کوئی اوّل و آخر نہیں، انسان اُس کا داخلی تجربہ کرسکتا ہے۔
۲۳۔ حقائق کی سطح پر وقت اور وجود عینِ یک دیگر ہیں۔
ان میں کوئی ایک نکتہ ایسا نہیں ہے جس کی صراحۃً یا کنایتہ خطبات سے تصدیق نہ ہوتی ہو، بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلکہ خطبات میں زمان کا جو مجموعی تصور ملتا ہے وہ ان نکات پر کوئی اصولی اضافہ نہیں کرتا۔ اس لیے اگر ہم اقبال کے تصورِ زمان و مکاں کے اساسی پہلوئوں کی نشان دہی کے عمل میں خطبات تک محدود نہ رہیں تو بھی یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ فلاں بات کہیں خطبات سے متصادم نہ ہو۔
اس مبحث میں علامہ کے حتمی مؤقف کی تعیین اور اس کے تجزیے کے لیے چند سوالوں سے گزرنا ناگزیر ہے، مثلاً وہ کون سی علمی غرض ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ زمان و مکاں کی ایک نئی تعبیر کے متلاشی ہیں؟ اور کیا وہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی؟ نیز خود وہ جس تعبیر تک پہنچے کیا اُس سے اُن کی غرض پوری ہوتی ہے؟
ہمارے نقطۂ نظر سے ان کے جوابات یہ ہیں:
۱۔ ذاتِ الٰہیہ سے زمان و مکاں کو جو شرائطِ وجود ہیں، کیا نسبت ہے؟ اس نسبت کو جدید ذہن کے لیے قابلِ قبول استدلال کے ساتھ واضح اور ثابت کرنا۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ علمی غرض جو اس مسئلے پر غور و فکر کا محرک بنی۔
۲۔ یہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کیوںکہ اُن کی بنیاد جس episteme پر تھی، وہ کلیۃً غیر مؤثر ہوچکا ہے۔
۳۔ خود اقبال کی وضع کردہ تعبیر بعض essential lackings کی وجہ سے یہ غرض پوری کرنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی۔
اب ان کی تفصیل:
مابعد الطبیعیات، خواہ بطورِفلسفہ و کلام ہو یا بطور Gnosticism، اپنی تمام سرگرمیاں ایک ہی مسلّمے سے شروع کرکے اُسی پر ختم کرتی ہے۔ وہ مسلّمہ ہے: وجودِ خداوندی جو فلسفے میں معقول، کلام میں مفہوم اور Gnosticism میں محسوس ہے۔ تعقل، فہم اور احساس کا امتیاز ایک ہی object کو کس طرح ایک نہیں رہنے دیتا۔ اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے ہم گفتگو کا آغاز یہیں سے کریں گے کہ مابعد الطبیعیات کے یہ تینوں ڈسپلن جب دین کے تصورِ الٰہ کو تسلیم کرکے اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اُس کی تحقیق کرنے نکلتے ہیں تو اسے اپنے داخلی مطالبات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے فلسفہ ایک Ontology تشکیل دینا چاہتا ہے جس سے نظامِ عالم کی اصل عقلاً متحقق ہوجائے۔ وجودِ خداوندی اس کی پوری گنجائش رکھتا ہے کہ ذاتیت کو منہا کرکے بھی نظامِ عالم کی معقول اصل بن سکے۔ کلام چاہتا ہے کہ دین کے discource of the divinity کی تفہیم ممکن ہوجائے اور ذات و صفات اور اس طرح کے دیگر مسائل میں دینی حجیت، منطقی صداقت بھی بن جائے۔ اسی طرح Gnosticism کا مقدمہ ہے کہ وحدتِ ذاتی لازماً وجودی، مطلق اور عام ہوگی اور اسے موجودیت کی کسی سطح پر بھی کسی شرکت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس وحدت کو اللہ کے لیے ثابت کرکے تمام مظاہرِ کثرت سے مستقل وجود کی نفی کردی جائے۔
عقلی اور وجدانی شعور کے یہ مطالبات، وجود اور اس کی حقیقت و ماہیت پر غور کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتے۔ فلسفے میں وجود، مابہ الموجودیت ہے جس میں چند اوصاف لازمی ہیں:
۱۔ واحد ہو
۲۔ معقول ہو
۳۔ مسبوق بالعدم نہ ہو
۴۔ اسے عالمِ کثرت کا مصدر و منبع بنایا جاسکتا ہو
اس میں ذاتیت، علم، اختیار اور ارادہ چنداں ضروری نہیں۔ فلسفے میں وجود کو موجود پر تقدم حاصل ہے۔
اہلِ کلام کے ہاں وجود بمعنی مصدری ہے یعنی بودن۔ اس کی ماہیت موجود سے متعین ہوتی ہے، مثلاً موجود حقیقی اور قدیم ہے تو وجود بھی حقیقی اور قدیم ہوگا۔
Gnostics بھی فلاسفہ کی طرح وجود کو مابہ الموجودیت ہی سمجھتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کے نزدیک وجود و موجود identical ہے اور ان کی عینیتِ محض کا نقطہ جس میں دوئی نظری presence بھی نہیں رکھتی، ذاتِ الٰہیہ ہے۔ چونکہ عینیت کا خاصہ ہے کہ یہ اپنے افراد و مشمولات سے ماورا ہوتی ہے لہٰذا ذاتِ الٰہیہ وجود اور موجود دونوں سے ماورا ہے۔
فلسفہ کسی ایسی صورتِ حال کو تسلیم نہیں کرسکتا جس میں وجود، عدم کے بعد ہو۔ اگر زمان و مکاں کو کسی مرحلے پر ساقط کردیا جائے تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا: عدمِ محض۔ اس لیے عقل زمان و مکاں کو شرطِ وجود قرار دیتی ہے اور وجود کے کسی بھی مرتبے کو اس سے خارج کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ موجودیت خواہ کسی بھی معنی اور مرتبے میں ہو، ماورائے زمان و مکاں نہیں ہوسکتی اور زمان و مکاں بھی واقعیتی فرق کو تو قبول کرسکتے ہیں مگر اپنی بنیادی اور ذاتی تعریف سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل، دینی حقائق کو مان لینے کے باوجود، وقت اور مادّے کی قدامت کا انکار نہیں کرسکتی۔ گو کہ اکثر مسلمان فلاسفہ اس قدامت کو قدمِ ذاتِ الٰہیہ سے ممتاز کرتے ہیں، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ فلسفے کی سچی نمائندگی کرتے ہیں نہ دین کی۔
دوسری طرف متکلمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عقل کو فہم و استدلال کے دائرے میں محدود کرکے اُسے اثباتی معنی میں text oriented بناتے ہیں۔ کلام کا مقصود بس اتنا ہے کہ دینی حقائق کو ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل، دینی حقائق کو نہ ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل پر حتماً غالب آجائیں اور یہ غلبہ ایک متفقہ اور مسلّمہ قانونِ استدلال پر استوار ہو۔ متکلمین کے نزدیک عدم، لاوجود کا نام نہیں ہے بلکہ لاموجود کا۔ اس لیے یہ مطلق نہیں ہے بلکہ اضافی اور انفرادی ہے، لہٰذا کسی چیز کا مسبوق بالعدم ہونا اہلِ کلام کے لیے وہ مشکلات نہیں پیدا کرتا جو فلاسفہ کو پیش آتی ہیں۔
زمان و مکاں کے بارے میں فلسفیانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ زمان ظرفِ وجود ہے اور مکاں ظرفِ موجود۔ اوصافِ وجود میں جو وصف سب سے زیادہ مستقل ہے، وہ زمانیت ہے، اور اوصافِ موجود میں وہ وصف مکانیت ہے۔ ذاتِ باری حقیقتِ وجود کے ساتھ موجود فی الخارج ہے تو ازروئے عقل اُس کا زمانی مکانی ہونا ضروری ہے ورنہ اُس کا کمال غیر متحقق رہ جائے گا۔ کلامی مؤقف یہ ہے کہ وقت وجود کی داخلی حرکت کا پیمانہ ہے اور مکاں اُس کے خارجی حدود کا تعین۔ حرکت اور محدودیت چونکہ ذاتِ الٰہ کے کمال کے منافی ہیں لہٰذا وہ زمانی ہے نہ مکانی۔ Gnosticism وجود و موجود اور زمان و مکاں کی لزومی نسبت کو فلاسفہ کی طرح تسلیم کرکے ذاتِ الٰہیہ کے وجود و موجود سے ماورا ہونے کا جو عقیدہ رکھتا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اُس ذات سے زمانیت اورمکانیت کی نفی ہوجائے۔ اس کے بغیر ذاتِ باری کی تنزیہ ثابت نہیں ہوسکتی۔
مختصر یہ کہ زمان و مکاں کے مبحث میں اسلامی فکری روایت متوازی یا ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے خطوط کی صورت میں جتنا سفر طے کرچکی ہے، اقبال نے اُس کے آخری مراحل میں سے بھی چند ہی کو گفتگو کو مستحق گردانا۔ فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل کا ڈول ڈالنے کے لیے گو کہ اس روایت کی صورت گری کرنے والے تمام عناصر کو گرفت میں لینا ضروری تھا تاہم علامہ نے کسی وجہ سے اس کے بڑے حصّے کو نظر انداز کردینا مناسب سمجھا۔ اس موضوع پر انھوں نے جن تصورات کو تائیداً یا تردیداً quote کیا ہے، اُن پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے:
اشاعرہ کا تصورِ زمانِ جوہری جو دراصل اُن کی الٰہیات کا ایک بنیادی حصّہ ہے، چند نازک مسائل کے حل کے لیے وضع کیا گیا تھا، مثلاً حیاتِ باری تعالیٰ کی ماہیت کیا ہے، اُس کا علم کس طرح کا ہے، کائنات کیسے خلق ہوئی؟ ربط الحادث بالقدیم کی نوعیت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آنات کو جواہر قرار دے کر انھوں نے مابعد الطبیعی ذہن کی کئی مشکلات رفع کیں اور اسے کچھ ایسے دلائل فراہم کیے جو ایک پہلو سے طبیعی بھی ہیں اور منطقی بھی۔ اس نظریے میں یقینا بہترے نقائص ہیں لیکن اس کا امتیاز اور اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مابعد الطبیعی ذہن کو وہ tool فراہم ہوگیا جسے استعمال کرکے زمان و مکاں کے حدود مقرر ہوسکتے ہیں، اور یہ مسئلہ غیر حقیقی ہوجاتا ہے کہ وجودِ باری زمانی مکانی ہے یا نہیں؟ اشاعرہ بلاشبہ اس نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ جب تک زمان و مکاں کو ایک ہی وجودی ترکیب پر مشتمل و مبنی ثابت نہیں کیا جائے گا، ان کی قدامت اور مستقل لزو م کی تردید محال ہے۔ ہمیں یقین سے تو نہیں معلوم، لیکن یہ اندازہ بہرحال کیا جاسکتا ہے کہ وقت میں ایک طرح عنصریت کا اثبات اور اس کی ایک منظم ساخت کی عکاسی کرکے اشاعرہ نے نفس زمان میں وہ مکانیت دریافت کی ہے جس سے عاری ہو کر کوئی شے موجود اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اور یہی مکانیت ہے جو زمانے کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے۔ نیز آن کو جوہرِ سادہ کہہ کر اشعریوں نے ان امور کو قابلِ استدلال بنا دیا:
۱۔ حرکت و تغیر اور تسلسل و توالی، زمانے کے مستقل اور ذاتی اوصاف نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت اعراض کی ہے۔
۲۔ آن جو مخ الزمان ہے essentially معدوم اور phenomenally موجود ہے۔ اس لیے زمانہ جو مجموعۂ آنات ہے ریاضیاتی پیمانے سے غیر متناہی ہونے کے باوجود قدیم یعنی لااوّل و الآخر نہیں ہوسکتا اور قابلیتِ عدم اس میں بھی پائی جائے گی۔
۳۔ آن body of time ہے جس کی بنیاد پر وقت معدودیت، تحدید اور تجزیے کو قبول کرتا ہے اور موجودیت فی الخارج کی کونیاتی شرط یعنی مکانی پن کو بھی پورا کرتا ہے۔
۴۔ وقت noumenally ہی نہیں structurally بھی ساکن ہے۔ اُس کے mechanism کی نسبت اُس کی ماہیت سے نہیں بلکہ خالقِ مطلق کے تخلیقی ارادے اور قدرت سے ہے۔ یہ اُن کا مظہرِ اوّل ہے۔
۵۔ زمانہ، تابع موجود ہے یعنی Essence یا خودی کو اس پر تقدم حاصل ہے البتہ وہ تقدم principial ہے نہ کہ phenomenal۔
مختصر یہ کہ مکانیت کو زمان اور زمانیت کو مکاں کی ماہیت میں داخل کرکے اشاعرہ نے ان کی عینیت و غیریت کو جس طرح آپس میں گوندھ دیا ہے وہ مسلم فکر کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہ نظریہ تشکیل نہ پاتا تو وجود کی زمانیت اور مکانیت کا قضیہ ایک مطلق حکم کے طور پر برقرار رہتا اور مابعد الطبیعی discource کا امکان ماند پڑ جاتا۔
اقبال atomic time کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ اُن کے اعتراضات کی نوعیت ان اقتباسات سے واضح ہے:
1, 'In fact the Ash`arite vaguely anticipated the modern notion of point-instant; but they failed rightly to see the nature of the mutual relation between the point and the instant... The point is not a thing, it is only a sort of looking at the instant.' ۱۰؎
2- 'Thus a criticism, inspired by the best traditions of Muslim thought, tends to turn the Ash'arite scheme of atomism into a spiritual pluralism..." ۱۱؎
3- 'Time, according to the Ash‘arite, is a succession of individual ‘nows’. From this view it obviously follows that between every two individual ‘nows’ or moments of time, there is an unoccupied moment of time, that is to say, a void of time. The absurdity of this conclusion is due to the fact that they looked at the subject of their inquiry from a wholly objective point of view. ۱۱۔ ا؎لف
4- '... the constructive endeavour of the Ash ‘arite, as of the moderns, was wholly lacking in psychological analysis, and the result of this shortcoming was that they altogether failed to perceive the subjective aspect of time. It is due to this failure that in their theory the systems of material atoms end time-atoms lie apart, with no organic relation between them. ۱۱۔ ب ؎
5- 'It is clear that if we look at time from a purely objective point of view serious difficulties arise; for we cannot apply atomic time to God and conceive Him as a life in the making. ۱۱۔ ج ؎
اسی طرح کے اعتراضات ہیں جن کی بنا پر اشاعرہ کے نظریۂ تخلیق کے بعض گوشوں کو سراہنے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود ۱۲؎ علامہ Atomic time کے تصور کو سرے سے رد کردیتے ہیں۔۱۳؎ اس معاملے میں ہم نے اپنی رائے نمبروار پہلے ہی عرض کردی ہے لہٰذا اقبال کی تنقیدات پر خاص طور سے تبصرہ کرنا غیر مناسب محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اتنا کہنے میں شاید کوئی حرج نہ ہو کہ اس مسئلے پر اقبال نے اشاعرہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعرہ کا نظریہ ذات یا خودی اور زمان کی لازمی نسبت پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا کیوںکہ یہ objective بہت ہے، یعنی اشعریوں کا زمان یک سطحی ہے جو مثال کے طور پر زمانِ الٰہیہ کی نوعیت سمجھنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ ۱۴؎
اشاعرہ کی اس کمی پر خود مسلم روایت سے دلیل لانے کے لیے اقبال، عراقی اور دوّانی کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے برعکس زمان و مکاں کی اضافیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ۱۵؎
یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ’غایتہ الامکان‘ صوفی شاعر فخر الدین عراقی کی تصنیف نہیں ہے، اس کے مصنف محمود اشنوی ہیں اور ملا جلال الدین دوانی اضافیتِ زمان و مکاں کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس معاملے میں اُن کا مؤقف وہی تھا جو اسلامی فلسفے کے بعض ائمہ مثلاً ابنِ رشد وغیرہ کا تھا، یعنی جو وجود متحرک، متغیر اور محدود نہیں ہے، زمان و مکاں اُس کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے ’’زوار‘‘ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
گو کہ نتیجے کے اعتبار سے اشنوی کا مؤقف روایتی ہی ہے لیکن اُس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ انھیں اس مبحث پر وہ گرفت، مہارت اور بصیرت میسر نہیں تھی جو بڑے لوگوں میں نظر آتی ہے۔ زمان و مکاں کی اضافیت، مسلم فکر و عرفان کے تقریباً مسلمات میں سے ہے مگر لگتا ہے کہ اشنوی نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں اور اس اضافیت کی اندرونی مطلقیت سے تجاوز کرکے اور نفسِ اضافیت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے انفعانی جہت ہی سے سہی، مطلق پر بھی وارد کردیا حالانکہ اضافی کا مطلب ہی یہ ہے کہ مرتبۂ اطلاق میں اس کا عدم ضروری ہے۔ حرکت، تسلسل اور تغیر منہا ہو کر بھی زمانہ اگر لائقِ اثبات، بلکہ وجود کی لازمی نسبت کے طور پر موجود رہتا ہے تو بعض ایسی مشکلات پیدا ہوجائیں گی جو مابعد الطبیعی فکر کے لیے بھی لاینحل ہیں۔
جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو وہ اس نظریے کو قدرے پسندیدگی اور ہم دردی سے دیکھنے کے باوجود من و عن قبول نہیں کرتے۔ اس پر اُن کی جو رائے ہے اُس کے بنیادی اجزا یہ ہیں:
1- '...... a cultured Muslim sufi intellectually interpreted his spiritual experience of time and space in an age which had no idea of the theories and concepts of modern Mathematics and Physics,' (۱۶)
2- Iraqi is really trying to reach the concept of space as a dynamic appearance.' (۱۷)
3- 'His mind seems to be vaguely struggling with the concept of space as an infinite continum; yet he was unable to see the full implications of his thought partly because he was not a mattienatician and party because of his natural prejudice in favour of the traditional Aristotelian idea of a fixed universe.' (۱۸)
4- A keener insight into the nature of time would have led Iraqi to see time is more fundamental of the two....' (۱۹)
5- Iraqi's mind, no doubt, moved in the right direction, but his Aristotelian prejudices, coupled with a lack of psychological analysis, blocked his progress.' (۲۰)
6- With his view that Divine Time is utterly devoid of change.... it was not possible for him to discover the relation between Divine Time and serial time and to reach, through this discovery, the essentially Islamic idea of continuous creation which means a growing universe.' (۲۱)
حوالے قدرے طویل تو ہوگئے مگر ہم یہیں ایک ضروری نکتے پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں، اور وہ یہ کہ ہماری رائے میں اقبال اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ مسلمان فلاسفہ و متکلمین ہوں یا صوفیہ، اللہ کی نسبت سے زمان و مکاں کے باب میں چند امور پر اس طرح متفق ہیں کہ ان کے داخلی اختلافات بھی یہاں ایک طرف ہوجاتے ہیں:
۱۔ ذاتِ الٰہیہ ماورائے زمان و مکاں ہے
۲۔ قدمِ باری ذاتی ہے نہ کہ زمانی
۳۔ حرکت، تغیر، جہت اور حد، اپنے ہر معنی میں کمالِ ذاتی کے منافی ہیں، لہٰذا ان کا گزر صفات کے دائرے ،میں بھی محال ہے، اور یہ استحالہ عقلی بھی ہے۔
عراقی (اشنوی؟) بھی ان متفقات سے باہر تو نہیں گئے لیکن انھوں نے بات کہنے کا ایک ایسا نیم متصوفانہ نیم فلسفیانہ انداز اختیار کیا جس میں وہ اندرونی لچک موجود ہے جسے استعمال کرکے ایک صحیح المعنی قول کو بھی اُس کی مراد کے مخالف رخ پر موڑا جاسکتا ہے۔ اقبال کے لیے تنوعِ زمان و مکاں کا یہ تصور نہیں بلکہ اس کا بیان باعثِ کشش ہے، ورنہ جس نتیجے تک یہ تصور پہنچتا ہے وہ ان کے لیے قطعاً ناقابلِ قبول ہے، یعنی زمانِ الٰہیہ میں حرکت و تغیر کی نفی۔ اس سے پہلے تک کے تمام مراحل میں اقبال، عراقی کے ساتھ ہیں۔
جیسا کہ ہم اوپر کہیں اشارہ کرچکے ہیں کہ اقبال کی تمام فکری و تخیلی سرگرمیاں اُن کے تصورِ خودی کے گرد گھومتی ہیں اور خودی بھی انسانی خودی، جس کے اکثر تشکیلی عناصر Anthropomorphic ہیں۔ اقبال کا انسان روایتی انسان سے کہیں زیادہ مکمل ہے۔ وہ محض صفاتِ الٰہیہ ہی کا نہیں بلکہ ذاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے اور اس وجہ سے اپنی وجودی انفرادیت میں کسی طرح کی شرکت کو قبول نہیں کرتا، حتیٰ کہ خدا کی بھی۔ وحدت الوجود کے مقابلے میں اُن کا نظریۂ اثنینیت، عبد و معبود کے تعلق کے اخلاقی و قانونی حدود کے تحفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقی مقصود، کم از کم منطقی انتاج کی رُو سے، تألّہِ انسان اور تأنسِ الٰہ ہے۔ یہ وہ منتہا ہے جہاں وحدت الوجود نہیں پہنچ سکتا یا پہنچنا نہیں چاہتا۔ اس تک رسائی کا بس ایک راستہ تھا جو اقبال نے اختیار کیا: وجودی متوازیت۔ خدا اور انسان دو متوازی وجود ہیں جن کی موجودیت کے احوال تقریباً یکساں ہیں یعنی یہ دو مقابل ذاتیں ہیں جن کا وجودی سیاق و سباق فی الاصل مختلف نہیں ہے۔ چونکہ انسان کے موجود ہونے کی ایسی حالت تصور میں نہیں آسکتی جس میں زمان و مکاں مستقل حوالے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں لہٰذا خدا کے ساتھ اس کی مبنی بر غیریت مشابہت کے اثبات کے لیے لازم ہے کہ زمان و مکاں کو خود ذاتِ باری کے لیے بھی ثابت کردیا جائے۔ بصورتِ دیگر انسان کا وجودی استقلال، متوازیت، غیریت اور مشابہت میں سے کوئی ایک چیز بھی establish نہیں ہوسکتی۔ زمانی مکانی تنوع اور اضافیت کے نظریے میں فطری طور پر اس بات کا جواز موجود ہے کہ زمانیت اور مکانیت انسانی خودی کے الوہی جوہر سے متصادم نہیں ہیں۔ ہاں خودی کا مسبوق عن الزمان اور محدود فی المکان ہونا اس کے نقص پر دلالت کرسکتا ہے، لیکن خودی اپنے دونوں مراتب میں ازروئے ماہیت اس نقص سے پاک ہے۔
عراقی کے بیان کردہ مراتبِ زمان و مکاں میں علامہ کو یہ امکان نظر آتا ہے کہ اس کی بنیاد پر انسانی خودی کا ربانی خودی سے صادر ہونا زیادہ قابلِ فہم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے وہ عراقی کی سمتِ سفر کو درست کہتے ہیں۔ نزاع تصورِ انسان میں نہیں ہے بلکہ تصورِ خدا میں ہے۔ عراقی جب ذاتِ باری کی نسبت سے زمان کو حرکت و تغیر اور مکاں کو حدود و جہات سے عاری کرکے اُن کی ماہیت بدل دیتے ہیں تو یہ چیز اقبال کی scheme of things میں نہیں کھپتی۔ اس طرح انسانی خودی کا مستقل امتیاز maintain نہیں ہوسکتا اور مطلق خودی کو زمان و مکاں کی ہر جہت سے ماورا مان کر ایک تو مقید خودی اپنے مصدر سے محروم ہو کر وجودی استناد گنوا بیٹھتی ہے ،اور دوسرے اس طرح مقید خودی، مطلق خودی سے تقابلی امتیاز کے ساتھ مربوط ہونے کی بجائے اُس کے ضد میں ڈھل جاتی ہے جس سے خود اس کی موجودیت ہی غیر حقیقی بن کر رہ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال اُس وقت تک عراقی کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ انسان کے روحانی کمال کی تفصیل بیان کرتے ہیں، لیکن جوں ہی وہ اس کمال کو الوہی کمال کے سمندر میں قطرے کی طرح فنا ہوتے دیکھتے ہیں، اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔۔۔۔ وہ راہ جو انھوں نے پہلے سے بنا رکھی ہے۔
ذاتِ خداوندی کا اپنی تمام صفات سمیت لااوّل و لاآخر ہونا، مذہبی فکر کا بنیادی مسلّمہ اور مقدمہ ہے۔ اس کی پہلی دلالت ہی یہ ہے کہ وہ ذات لازمان و لامکاں ہے، یعنی حرکت، تغیر، تجدید وغیرہ اُس کی ماہیت میں متحقق ہیں نہ فعلیت میں۔ اس دعوے کومجروح یا کم زور کرنے والی ہر چیز بکل الوجوہ ایک انحراف ہے نہ صرف یہ کہ مذہبی فکر سے بلکہ خود نفسِ مذہب سے۔ یہی وجہ ہے اسلامی فکر و عرفان کی ساری روایت کم از کم اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ ذرا سی لچک کی بھی روادار نہیں ہے۔ اس پس منظر میں اقبال کی Reconstruction کا منصوبہ اپنی غایت کے اعتبار سے اگر کسی بڑے اعتراض کا ہدف بن سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ انھوں نے پوری اسلامی روایت جس تصورِ الوہیت پر قائم ہے، اُسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور انسان کے وجودی اور اخلاقی مرتبے کو ایک شدید شاعرانہ قوت کے ساتھ اتنا بڑھا دیا ہے کہ اس کے مقابلے میں خدا ہونا کچھ ایسا قابلِ فخر نہیں رہتا۔
بہرحال ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ حقائقِ انسانیہ کا صوفیانہ بیان اقبال کے تصورِ انسان کے لیے درکار بلندی اور پھیلائو فراہم کرتا ہے، لہٰذا وہ اس کی نتائجی کلیت کو سختی سے رد کرنے کے باوجود اسے اظہاری پہلو سے اپنے لیے کارآمد بنا لیتے ہیں، یعنی اُس کی معنوی ساخت سے سروکار رکھے بغیر اُس کے لفظی شکوہ کو اپنے مصرف میں لے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر عراقی ہی کا معاملہ لے لیں۔ عرفانی روایت کے درجۂ دوم کے spokesmen کی طرح عراقی نے علم الوجود پر تشریحی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے مسئلۂ زمان و مکاں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ انھوں نے منطقی اور مکتبی صوفیہ کے اسلوب میں زمان و مکاں کے تین بنیادی مراتب بتائے ہیں: مادّی اشیاء کا زمان و مکاں، روحانی موجودات کا زمان و مکاں اور الوہی زمان و مکاں۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وجودِ اصلی اور اُس کے تعینات کی تفصیلی تحقیق ہوجائے اور اس کے ضمن میں حقیقتِ جامعۂ انسانیہ کا بھی بیان ہوجائے جو Being اور Becoming کا برزخ ہے اور خود متعین ہونے کے باوجود ماورائے تعینات حقیقت سے واصل ہونے کی قابلیت رکھتی ہے۔ یہی قابلیت اُس کی جامعیت کی واحد دلیل ہے۔ تصوف میں فنائے ذاتی اسی قابلیت کی کار فرمائی کا نام ہے۔ اقبال اس فنائے ذاتی کو بھی قبول کرتے ہیں مگر شکستنِ تعین کے معنی میں جو حیرت انگیز طور پر ارادی ہے۔
اقبال نے چونکہ اپنے لیے مفکر کے بجائے Reconstructor کا کردار منتخب کیا ہے، اس لیے زمان و مکاں کے مسئلے پر بھی وہ پہلے سے موجود تصورات کی تراش خراش اور انھیں ایک نئی ترکیب میں ڈھالنے تک محدود رہتے ہیں، اور یہ سارا عمل اُن کے خصوصی طرزِ فکر کے تابع ہے جو اپنی بناوٹ میں رومانوی اور آدرشی ہے۔ برگساں کا حیاتیاتی دورانِ خالص، آئن اسٹائن کی طبیعیاتی مطلق اضافیت یا اضافی مطلقیت، اور ولیم جیمز کا نفسی تجربہ اور اس کے روحانی و مابعد الطبیعی محتویات - علامہ کے تصورِ زمان و مکاں کے بنیادی ترین عناصر ہیں جنھیں آپس میں جوڑنے کے لیے وہ ان کی انتاجی شکل کو محو کردیتے ہیں۔ اس طرح کی مشروط اور censored پیوند کاری ظاہر ہے کہ پہلے سے طے شدہ نتائج کے حصول ہی کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طرح کا ذہن درکار ہے جس میں تصورات شاعرانہ آمد کی طرح pharse ہوتے ہیں جنھیں اسی ذہن میں خلقی طور پر موجود معنی آفرینی کی غیر و قوفی صلاحیت ایک ایسے discource میں تبدیل کردیتی ہے جس میں جمالیات اور اخلاق یک جان ہو کر اس کی verifyability کا سوال نہیں اُٹھنے دیتے۔ اپنی functional جہت میں یہ ذہن حقیقت کی لازمی اعتباریت میں ’تجربی‘ وثوق پیدا کرنے کے لیے phenomenal کو rearrange کرکے نئی ترکیبی دلالتیں وضع کرتا ہے جو اُس کے ماقبل موضوعہ مدلولات یا بالفاظِ دیگر مفروضاتِ اوّلیہ کو واقعیت اور کلیت کا رنگ دے سکیں۔ اس ذہن سے پیدا ہونے والی فکر کو ہم نے جمالیاتی و اخلاقی اس لیے کہا ہے کہ کلیت و واقعیت کا اجتماع اگر ممکن ہے تو اسی طرح۔ کم از کم برصغیر کی حد تک مسلم روایت میں اس ذہن کا اگر واحد نہیں تو سب سے متحرک اور طاقت ور اظہار اقبال میں ہوا۔ انھیں دوسروں کے مقابلے میں ایک سہولت یہ بھی میسر تھی کہ مغربی علوم اور جدید سائنس کا تفصیلی علم رکھتے تھے اور مغرب کی شعریات سے بھی دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقف تھے۔ اس کی وجہ سے اُن کے ذہن کو اپنی فطری functioning، یعنی مظاہر کی نئی ترتیب و ترکیب کے لیے درکار خام مواد بھی کثرت سے دستیاب ہوگیا جس کے لاانتہا تنوع اور نیز قبولیت کی بنا پر انھیں کسی بھی مرحلے پر پانی کے حصول کے لیے کنواں خود نہیں کھودنا پڑا۔
اگر آدمی خود کو کہیں fix کیے بغیر اقبال کے خیالات و تصورات کا حقیقی مفہوم میں غیر جانب دارانہ مطالعہ کرسکے تو کم از کم اس نتیجے پر پہنچنے سے رک نہیں سکتا کہ اُن کا اصولِ استدلال ایک خاص انداز سے تطبیقی ہے۔ اُن کی کائنات اپنے مابعد الطبیعی پھیلائو میں بھی انسان مرکز ہے۔ اس انسان مرکزی کو تقویت پہنچانے والا ہر تصور، اپنی نظریاتی حیثیت سے قطعِ نظر اُن کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اُن کی بے پناہ تالیفی صلاحیت متضاد نظریات کو بھی اس مصرف میں لے آتی ہے۔ اُن کے فکر و تخیل کا عمل جہاں جہاں بھی مکمل ہوا، اس کی تکمیل میں بالعموم متضاد عناصر کی کار فرمائی صاف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی شخصیات کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا اقبال پر گہرا اثر ہے تو بڑی دلچسپ صورتِ حال سامنے آئے گی۔۔۔۔ لیکن یہ کام ہماری موجودہ ذمہ داری کے دائرے میں نہیں آتا، اس لیے اس طرف جانے کے بجائے سرِ دست ہم اپنی توجہ اس نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور جہاں تک ’کیوں‘ کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔
جیسے مسئلۂ زمان و مکاں میں اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ مختلف تصورات پر تبصرے کی سطح سے اوپر اُٹھ کر اقبال کا اپنا مستقل مؤقف کیا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے ذہن کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ نہایت بنیادی مباحث میں بھی یہ گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی کہ اُن پر اختیار کیا جانے والا مؤقف technically عقلی یا تجربی نہ ہو اور اس کی تشکیل کسی عارفانہ، حکیمانہ اور شاعرانہ تخیل سے ہوئی ہو۔ اس کے بعد ہی ہم یہ دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے کہ اقبال کی نظر میں حرکت و تغیر اور وجود ہم معنی ہیں اور عینِ یکدیگر۔ وجود اپنے ہر مرتبے میں فعلیت کے فرق کے ساتھ اصلاً حرکت ہی ہے جس کے من و اِلیٰ کا ظہور بعد میں ہوتا ہے، اور وہ بھی ایسی اضافیت کے ساتھ جو واجب الاثبات ہے۔ اس کی تفصیل مطلوب ہو تو پیچھے گزرنے والے حوالے دیکھ لیے جائیں۔
اقبال کے تصورِ وقت کو ایک مربوط بیان میں ڈھالنا آسان نہیں۔ اُن کا شعر اُن کے فلسفے میں اور فلسفہ شعر میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ اُن کے کسی بھی نظریے کو بیان کرتے ہوئے ایک اندرونی منتقلی کے مسلسل عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اظہار و استدلال کے ظاہری در و بست کو بھی منقلب کرتا رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اُن کے اس تصور کو نکتہ بہ نکتہ کرکے بیان کرنے کی کوشش کی جائے جس کے ذریعے سے امید ہے کہ اس مسئلے پر اقبال کے فکر و تخیل کے حاصلات کا ایک مجموعی خاکہ سا تیار ہوجائے گا:
۱۔ وجودِ حقیقی، خودی ہے۔
۲۔ خودی کی دو وجودی جہتیں ہیں:
ذاتیت اور فعلیت
۳۔ ذاتیت کے بنیادی اوصاف یہ ہیں:
وحدت، قدم، علم، آزاد ارادہ اور متصف بالصفات ہونا
۴۔ فعلیت کا بنیادی عنصر تخلیق ہے۔
۵۔ ذات اور فعل کے درمیان حرکت متحقق ہے۔
۶۔ یہ حرکت مکانی نہیں ہے بلکہ تغیرِ محض یا تغیر بلا تواتر ہے۔ یعنی اس سے کوئی وجودی اور اصلی تبدیلی عمل میں نہیں آتی بلکہ ذات کی قوۃ، فعل میں ڈھلتی ہے۔
۷۔ یہی تغیر، دورانِ محض ہے جو اصلِ زمان ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زمانِ حقیقی ہے جس کے ذریعے سے ذاتِ الٰہیہ میں پوشیدہ امکانات عمل پذیر ہوتے ہیں اور اس کے کمالات unfold
۸۔ خودی سے خودی کے صدور میں یہ پورا setup الوہی سے انسانی ہوجاتا ہے ضروری فرقِ مراتب کے ساتھ
۹۔ انسانی realm میں ہستی کا اصول چونکہ اثنینیت ہے لہٰذا یہاں زمان یا حرکتِ اصلی یاتغیرِ محض کو succession لاحق ہوجاتی ہے جو مرتبۂوحدت میں درکار نہیں تھی کیوںکہ وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا۔
۱۰۔ تاہم انسانی خودی بھی جس حرکت سے عبارت ہے وہ دورانِ محض ہی ہے۔
۱۱۔ اس لیے انسان زمانِ الٰہیہ کے معانی کو اپنے اندر دریافت کرسکتا ہے۔
۱۲۔ انسانی خودی کی فعلی تحدیدات کی وجہ سے زمانے کے بہائو پر جب اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے تو اُس کا تصورِ زمان بھی میکانکی اور جبری ہوجاتا ہے۔
۱۳۔ نتیجتاً انسانی خودی کی طرح انسانی تاریخ بھی یا تو نظر کا دھوکا بن کر رہ جاتی ہے یا تقدیر کے تابع ہوجاتی ہے۔
۱۴۔ ان تحدیدات کو جو خودی کی حقیقت سے بُعد کے نتائج ہیں، توڑنے کا ایک ہی ذریعہ ہے: حرکت و تغیر کے در تمامی مراتب حقیقی اور عینِ وجود ہونے کا وجدانی ایقان۔
۱۵۔ اسی سے وہ آزادانہ تخلیقی ارادہ بیدار ہوگا جو غلبہ و تقدمِ خودی بر زمان کے ربانی اصول کا عکاس ہے۔
۱۶۔ انسانی خودی اپنی اس حالت میں زمانے یعنی حرکت و تغیر کی کائناتی رو پر غالب آسکتی ہے کہ وہ اپنے مصدر یعنی ربانی خودی میں کار فرما از ذات تا بہ صفت یا از قوۃ تا بہ فعل حرکت کا تحقق خود اپنے اندر کرنے لگے۔
۱۷۔ یہی وہ حال ہے جو انسانی خودی کو بقائے دوام کا مستحق بناتا ہے۔
یہ ہیں علامہ کے تصورِ زمان کے وہ بنیادی نکات جس میں وہ مسلم فکر کی پوری روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک نکتہ بھی اس روایت میں موجود نہ تھا۔ اس انفرادیت کے ظاہر ہے کہ کچھ اسباب ہیں۔ اقبالیات میں ان کی تحقیق پر ابھی کوئی قا بلِ ذکر کام نہیں ہوا، شاید آئندہ کوئی صاحب ہمت فرمائیں۔
مذکورہ بالا نکات کا جو خلاصہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ خدا کے لیے بھی ثابت ہے مگر وہاں اس کا ثبوت عینی نہیں ہے، جب کہ انسانی دنیا میں وقت فاعلی انداز رکھتا ہے اور ایک مؤثر اصول کے طور پر موجود ہے۔ تاہم انسان اپنی خودی کے حقیقی پھیلائو میں زمانے کو subjectivize کرکے اُس کے ماہیتی جوہر یعنی دورانِ محض اور اخلاقی جوہر یعنی بقائے دوام کا تجربہ کرسکتا ہے اور اسے اپنی وجودی و روحانی تکمیل کا وسیلہ بنانے پر قادر ہوسکتا ہے۔
اگلی گفتگو کا موقع آیا تو ہم اقبال کی شاعری اور خطبات سے اُن کے تصورِ وقت کے ضروری اجزا کو اکٹھا کرکے ان کا تنقیدی مطالعہ کریں گے۔
حوالے اور حواشی
1
Pure time, then, as revealed by a deeper analysis of our conscious experience, is not a string of separate, reversible instants; it is anorganic whole in which the past is not left behind, but is moving along with, and operating in, the present. And the future is given to it not as lying before, yet to be traversed; it is given only in the sense that it is present in its nature as an open possibility. (page, 39-40)
2
Time regarded as destiny forms the very essence of things. As the Qur’an says: ‘God created all things and assigned to each its destiny. The destiny of a thing then is not an unrelenting fate working from without like a task master; it is the inward reach of a thing, its realizable possibilities which lie within the depths of its nature, and serially actualize themselves without any feeling of external compulsion. (page, 40)
3
If time is real, and not a mere repetition of homogeneous moments which make conscious experience a delusion, then every moment in the life of Reality is original, giving birth to what is absolutely novel and unforeseeable. ‘Everyday doth some new work employ Him, says the Qur’an. (page, 40)
4
To exist in real time is not to be bound by the fetters of serial time, but to create it from moment to moment and to be absolutely free and original in creation. (page, 40)
5
On the analogy of our conscious experience, then, the universe is a free creative movement. (page, 41)
6
A critical interpretation of the sequence of time as revealed in our selves has led us to a notion of the Ultimate Reality as pure duration in which thought, life, and purpose interpenetrate to form an organic unity. (page, 44)
7
If we regard past, present, and future as essential to time, then we picture time as a straight line, part of which we have travelled and left behind, and part lies yet untravelled before us. This is taking time, not as a living creative moment, but as a static absolute, holding the ordered multiplicity of fully- shaped cosmic events, revealed serially, like the picture of a film, to the outside observer....... Personally, I am inclined to think that time is an essential element in Reality. But real time is not serial time to which the distinction of past, present, and future is essential; it is pure duration, i.e. change without succession. (page, 46)
8
Serial change is obviously a mark of imperfection; and, if we confine ourselves to this view of change, the dificulty of reconciling Divine perfection with Divine life becomes insuperable..... The Absolute Ego, as we have seen, is the whole of Reality. He is not so situated as to take a perspective view of an alien universe; consequently, the phases of His life are wholly determined from within. Change, therefore, in the sense of a movement from an imperfect to a relatively perfect state, or vice versa, is obviously inapplicable to His life. (page, 47)
کلیاتِ اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۔ ۸۵۔۸۶
ضبط و ترتیب: طارق اقبال
مابعد الطبیعی مباحث یا تو کسی دعوے سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی دعوے تک پہنچنے کے لیے۔ پہلا طریقۂ کار فکر کی دینی روایتوں میں اختیار کیا جاتا ہے جب کہ دوسرا فلسفۂ مابعد الطبیعیات میں۔ فکر کی دینی روایت میں عقل کا کردار اک گو نہ مرکزیت رکھنے کے باوجود لامحدود ہوتا ہے نہ فیصلہ کن، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ شعور جو ان مباحث کے مقابل ہوتا ہے، اس کی بناوٹ فلسفیانہ معنی میں عقلی نہیں ہوتی، یہ روایت تحقیقِ حقائق کا جو مخصوص اور متعین اسلوب رکھتی ہے اُس میں نتائج کی تشکیل میں ایک اہم عنصر وجدان کا ہوتاہے جو دراصل ایک خاص معنی میں عقل کے منطقی ہوجانے کا ہی نام ہے، تاہم عقل کا منطقی ہوجانا کوئی سادہ عمل نہیں ہے۔ اس کا ایک پیچیدہ پراسس ہے جو شعور کی اُن سطحوں پر کار فرما ہوتا ہے جو ارادی نہیں ہیں، اور اُن کے مشمولات، فکر کے لیے درکار مواد سے مماثلت یا کم از کم ایسی مشابہت نہیں رکھتے جو چیزوں میں ہم نوعی کا رنگ پیدا کرتی ہے۔ اگر clinical اپروچ کا مطالبہ نہ کیا جائے تو یہ بات قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے کہ یہ مشمولات اپنی حسی جہت میں بھی حواس کے مُعطیات سے نوعاً مختلف ہیں۔ یہ اختلاف یا امتیاز محض استدلال، ادراک اور نفی و اثبات کے معمولی حدود و شرائط ہی کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ چیزوں کو اُن کے فوری تعینات سے منقطع کیے بغیر انھیں اس طرح reconstruct کرتا ہے کہ شے معلوم، علم بالحواس کی عائد کردہ قیود سے تجاوز کرکے بھی اپنی actualization کی وہ وضع بعینہ برقرار رکھتی ہے جو اثباتِ حسی کے عمومی عمل سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چیزوں کی یہ reconstruction جس کے نتیجے میں اُن کی realization، اُن کی actualization پر غالب آجاتی ہے، noumenal نہیں ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ مابعد الطبیعی فکر، صورت و حقیقت کی دوئی کو مستقل مان کر شے کی موجودیت اور معلومیت کے اٹل امتیاز کو قبول کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کیوںکہ حقیقت کو اپنے اثبات کے لیے جو تنزیہ درکار ہے اُس میں صورت ایک سلبی حوالہ ہے نہ کہ متوازی۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شیٔ محسوس صرف صورت ہے، حقیقت نہیں۔ یعنی حقیقت کے لیے جو تنزّہ (transcendence) لازمی ہے، وہ دائرۂ محسوسات میں نہیں سما سکتا۔ Thing A چاہے Thing AB بن جائے، حقیقت کا container نہیں بن سکتی، رہے گی صورت ہی۔ حقیقت کا موجود ہونا اُس کی self containment سے عبارت ہے اور اُس کی معلومیت self- disclosure پر مبنی ہے۔ بودن و معلوم گشتن کا یہ امتیاز ناگزیر ہونے کے باوجود حقیقی نہیں ہے بلکہ اعتباری (اور اس کی ناگزیری بھی تمام تر واقعیت رکھنے کے باوجود نفسِ حقیقت کی رو سے اعتباری ہی ہے)۔
اس اصول کی روشنی میں اگر ہم Time-Space کے مسئلے کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حقیقت اور اس کی کثیر المراتب نسبتوں کے تحقّق کی ہر نوع میںادراک کی عنصری بناوٹ اور ذہنی وضع یکسانی کے ساتھ برقرار رہتی ہے مگر مدرکات اور اُن کے سلبی و ایجابی حدود منقلب ہوجاتے ہیں۔ حقیقت اپنے تحقق کے ہر مرحلے پر بہت سے موجود مدرکات اور ان کی ترکیبی ہیئت کی محویت کا تقاضا کرتی ہے یعنی ادراک و اثبات کی اس سطح پر صورت و حقیقت کے وہ مشترکات جن کے بغیر خود علم محال ہے، اپنی اضافیت کو منکشف کرتے ہیں اور ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پہنچ کر ان میں سے وہ امور ساقط ہوجاتے ہیں جن سے گزشتہ دائرے میں ان کی ماہیت متعین ہوتی تھی، یا باالفاظِ دیگر لوازمِ ادراک اور شرائطِ وجود جس وصفی نہائیت پراستوار ہیں، وہ دوسرے دائرے میں منتقل نہیں ہوتی۔ واقعیت اعتبار بن جاتی ہے اور وصف، موصوف کی تبدیلی سے ایک نئے وجودی pattern میں ڈھل جاتا ہے۔ Time-Space وجود کی ایک خاص حالت اور ادراک کی ایک مخصوص صورت کے لوازم ہیں۔ وجود کی سطح اور ادراک کا معروض بدل جائے تو ان کا لزوم ممکن ہے کہ باقی نہ رہے، یا اس کی نوعیت میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوجائے جو اس کی بنیادی تعریف کو بدل کر رکھ دے۔ قبلیت، بعدیت، ظرفیت اور حرکت ضروری نہیں کہ وجود کے دیگر مراتب میں بھی اسی طرح کار فرما ہوں جس طرح Time-Space کے موجودہ تعین میںہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ Time-Space کی signifying حیثیت حقیقت کے تمام ظہوری مراتب میں لازماً برقرار رہتی ہے تاہم مابعد الطبیعی فکر کے مطابق ان کی دلالت، مدلول کے تابع ہونے کی وجہ سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ وجود کے اصولی طور پر دو مراتب ہیں: حادث و محدود اور قدیم و لامحدود۔ پہلے مرتبے میں Movement-Sequence کی حکومت ہے اور دوسرے میں Change lessnes-Spontenity وجود کی فضا کو تشکیل دیتی ہے۔ چونکہ Time-Space وجود کے پورے ماحول کا نام ہے لہٰذا وجود کی وصفی ماہیت یعنی اُس کی ظہوری حالت اور تعین کی تبدیلی نہ صرف یہ کہ Time-Space پر وارد ہوگی بلکہ اُن کی ذاتی بناوٹ کو بھی تبدیل کرکے اس وجودی امتیاز سے ہم آہنگ کرے گی۔
اندریں صورت مابعد الطبیعی فکر کا مقدمہ وجود کی اصالت، ظہور کا تنوع اور Time-Space کی اضافیت سے ترکیب پاتا ہے۔ اس مقدمے کے تینوں اجزا آپس میں ایک ایسی عینیت کے حامل ہیں جو اپنی actual جہت میں مطلق ہے مگر اضافیت کے ساتھ، اور اضافی ہے مگر مطلقیت کے ساتھ۔
گویا قدیم و لامحدود کے وجودی اور ایجابی سیاق و سباق میں Time-Space ایک واسطے کی حیثیت سے یا بعض علمی اقتضاء ات کی تکمیل کے لیے ایک حوالے کے طور پر تو بہرحال ہوتے ہیں مگر ایک ایسی نسبت کے ساتھ جو انھیں عالمِ حدوث و تحدید میں حاصل نہیں تھی۔ یہاں اُن کا کردار مؤثر نہیں ہوسکتا کیوںکہ اسبابِ تاثیر اِس مرتبے میں منہا ہوجاتے ہیں۔ ماہیت کی تبدیلی سے یہی مراد ہے۔
مسلمانوں کی علمی و عرفانی روایت سادہ لفظوں میں کہا جائے تو توحیدی یا خدا مرکز ہے۔ اپنی اطلاقی اور کونیاتی جہت میں اس روایت کو اپنے مرکز سے جڑے رہنے کے لیے عقلی سطح پر جس مسئلے کا شدت سے سامنا کرنا پڑا وہ یہی Time-Space کا مسئلہ ہے۔ وحدتِ حقیقی اور اُس کے محتویات کے اثبات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ہے Time-Space کی مطلقیت۔ اسلامی فکر، عقلی ہو یا عرفانی، اِس رکاوٹ کو عبور کرنے کے کچھ اسالیب رکھتی ہے۔ اُن کی تفصیل میں جانے سے پہلے مناسب ہوگا اگر ہم اِس روایت کے بنیادی دھاروں پر کچھ ضروری گفتگو کرلیں تاکہ ابتدا ہی میں یہ واضح ہوجائے کہ یہ مسئلہ اور اس کی مخالفانہ شدت کا احساس و ادراک ہر ڈسپلن میں مشترک ہے، البتہ اِس سے عہدہ برا ہونے کی صورتوں میں تنوع یا اختلاف پایا جاتا ہے۔
حقیقتِ وجود، جس تک پہنچنے کے لیے زمان و مکاں کی ماہیت کا تحقق ضروری ہے، مسلمانوں کے لیے تنزیہی ہے۔ خیال رہے کہ تنزیہی کا مطلب عقلی و ذہنی نہیں ہے کیوں کہ اس میں وجودِ خارجی کی نفی نہیں پائی جاتی۔ مسلم روایت میں تنزیہ اُس موجودیت فی الخارج کو کہتے ہیں جس پر کوئی حد و شرط وارد نہ کی جاسکے، حتیٰ کہ وجود کی بھی ۔۔۔۔۔ تنزیہ اور اُس کے ایجابی تقاضے، یعنی ٔاثباتِ خاص بذریعۂ نفیِ عام، کے تحت متقدمین میں زمان و مکاں کا موضوع کسی مرکزی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بعد میں جب اثبات کے حدود ذہن تک پھیلنے لگے اور نفی قدرے مبنی براستدلال ہوگئی تو صوفیا، متکلمین اور فلاسفہ نے اپنے اپنے منہاج کے مطابق ذہن و فکر پر ایک نظری اور مابعد الطبیعی پیرائے میں کلام کا آغاز کیا۔
مسلمانوں میں Time-Space کا تصور تین سطحیں رکھتا ہے: طبیعی، عقلی اور الٰہیاتی۔۔۔۔۔ طبیعی سطح پر مکاں مادی ہے اور زمانہ حرکتِ مکاں۔ اِس بات کے دو مطلب ہیں، مکاں ایک متحرک جسم ہے جس کی حرکت اپنی ذہنی اور خارجی صورت میں وقت ہے۔ اس کے جسم اور حرکت کی طرح، وجودی سطح پر زمان و مکاں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن میں ایک دوسرے سے تقدم کا سوال بے معنی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ زمانہ حرکت ہے اور مکاں اُس حرکت کا ظرف۔ عقلی سطح پر مکاں ظرفِ وجود ہے اور زمان، مقدارِ وجود۔ گو کہ یہ عقلی سطح کا پورا بیان نہیں ہے، وہ ہم آگے کریں گے، تاہم یہ وہ سطح ہے جہاں عقل حسّی معطیات پر حکم لگاتی ہے اور حقیقت کے محسوس ہونے کو اپنا بنیادی مفروضہ بنا کر آگے بڑھتی ہے۔ یہاں عقل کا یہ کردار محسوسات سے تجاوز کرکے بھی اپنی اساس میں حسّی ہی رہتا ہے، مثلاً زمان و مکاں ہی کے مسئلے کو لے لیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ وجود کی ورائے حواس جہت کا اثبات کرنے کے باوجود وہ موجود ہونے کی جس زمانی مکانی تعریف پر کھڑی ہے وہ اوّل سے آخر تک حسّی ہے۔ وجود کی containment اور historisization کا کوئی بھی تصور محسوسات کے دائرے ہی میں ممکن ہے اور عقل اس تصور کو زمان و مکان کے مسلّمے کی مدد سے تصدیق پذیری کے مراحل طے کرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عقلِ محض کی سطح ہے۔ یہاں مکاں، لامحدودیت اور زمان، لامتناہیت کی مختلف نسبتوں کے مظاہر ہیں۔ یعنی مکاں سے لامحدودیت اور زمان سے لامتناہیت کا فوقِ تجربی اثبات عقلاً ممکن ہو جاتا ہے۔ ہم اس بات کو نہیں چھیڑیں گے کہ ایسی لامحدودیت اور لامتناہیت جو زمان و مکاں کی مدلول ہو، ریاضیاتی اور منطقی تو ہوسکتی ہے، واقعی اور خارجی نہیں۔ تیسری سطح یعنی الٰہیاتی سطح پر Time-Space اپنی آخری ممکن الاثبات حیثیت یعنی وجود کی نسبت کے طور پر بھی معدوم ہیں۔ بقولِ اقبال، ’’نہ ہے زمان نہ مکاں لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ۔‘‘ ۱؎ چونکہ وجود کے الٰہیاتی مرتبے میں نسبت بھی ساقط ہے لہٰذا یہاں time-space کا ہونا محال ہے۔
اب ہم اسلامی روایت کے تین بنیادی عناصر یعنی کلام، فلسفے اور تصوف میں دیکھیں گے کہ ان کا منہاج کیا ہے اور اُس منہاج کی روشنی میں time-space کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ بات شروع کرنے سے پہلے یہ تنبیہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی علمی اور عرفانی روایت اپنے ہر جز میں نزولی اور استخراجی ہے۔ حقیقت مقدمہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔
متکلمین کا منہاج یہ ہے کہ حقیقت، وحی یعنی خود اپنے بیان کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے اور عقل کی مدد سے سمجھی جاتی ہے۔ گویا حقیقت، بیانِ حقیقت، فہمِ حقیقت اور استدلال مبنی بر فہم۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس منہاج کا مقدمہ ہے۔ حقیقت خود اپنے بیان کی رو سے قدیم اور لامحدود ہے لہٰذا عقل کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس سے کوئی ایسی چیز منسوب نہ کرے جس سے ان دو اوصاف پر ضرب پڑتی ہو۔ زمانہ حقیقت کو قدیم نہیں رہنے دے گا اور مکاں، لامحدود۔ اہلِ کلام جب اللہ کو لازمان و لامکاں کہتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ زمانی یعنی حادث نہیں ہے اور مکانی یعنی محدود نہیں ہے۔ اُن کے نزدیک زمان اصلِ حدوث ہے اور خود حادث ہے اور مکاں اصلِ تحدید ہے اور خود محدود ہے۔ حادث اور محدود کا قیام قدیم اور لامحدود کے ساتھ محال ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ حقیقت کا ذاتی تعین یعنی وحدت اس بات کی متقاضی ہے کہ موجودیت کے اُن قطبینی عوامل کی نفی کردی جائے جو موجودات میں ہم وجودی کی دلیل بنتے ہیں۔ خصوصاً زمان و مکاں چونکہ ایک مطلقیت رکھتے ہیں لہٰذا وجود کے الٰہیاتی مراتب میں جہاں کا اصو ل مطلق وحدت ہے، ان کا اثبات کچھ لاینحل مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
فلاسفہ یعنی مابعد الطبیعیات کو فکر و نظر کا موضوع بنانے والے طبقے میں عقل کا کردار، اہلِ کلام کے برعکس، ایک حتمی اور مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا منہاج حقیقت، تعقلِ حقیقت اور بیانِ حقیقت ہے۔ فلسفے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو عقل پر حکم نہیں بناسکتا، اس لیے مسلمانوں کی فلسفیانہ روایت میں بھی آخری حجّت عقلی ہی ہوتی ہے۔ وحی عقل کا قابلِ اعتماد معروض ہے لیکن اس کا content جس حد تک حقائق سے تعلق رکھتا ہے، فلاسفہ کی نظر میں لفظی نہیں بلکہ عقلی ہوتا ہے یا معقولات ہی کی تصدیق کرتا ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں حقیقت اور بیانِ حقیقت میں جزوی عینیت ہے، اور وہ بھی بیان میں نہیں بلکہ عقل میں پائی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ وحی حقیقت کے عموم کو ایک بیان کی صورت میں خاص کرتی ہے، عقل اِس تخصیص کو وسعت اور زیادہ قطعیّت دے کر اُس عموم سے نزدیک تر کردیتی ہے جو بیان اور فہمِ بیان کے مذہبی تلازم میں نہیں سما سکتا۔ فلاسفہ کا مقدمہ یہ ہے کہ حقیقت اصالتاً معقول ہے جس کی تائید وحی سے بھی ہوتی ہے۔ time-space حقیقت کے ذاتی اطوار ہیں لہٰذا وقت اور مادّے کا قدیم ہونا حقیقت کی وحدت کو مجروح نہیں کرتا اور اُسے لائقِ اثبات بناتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ تمام مسلمان فلسفیوں کا یہی مؤقف ہے لیکن اس کے باوجود ہم خود کو ایک محفوظ پوزیشن پر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدوثِ زمان کو جن فلاسفہ نے قبول کیا ہے وہ بھی درحقیقت قدمِ زمان ہی کے قائل ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں، سرِدست ہم اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ حدوثِ ذاتی اور حدوثِ زمانی کا فرق محض ایک ذہنی چیز ہے اس سے نفس الامر کا تحقق نہیں ہوتا۔
اس مبحث میں صوفیہ کے مؤقف کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تصوف کی علمی روایت فلسفہ و کلام کے نقطۂ کمال سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ وہ بڑے بڑے مسائل اس روایت میں بھی اُٹھائے گئے ہیں جو فلسفہ و کلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم صوفیہ حقائق کے تقابل میں شعور کے rational structure پر انحصار کرنے کی بجائے اس کی حسّی تشکیلات پر زور دیتے ہیں۔ reality as Such اور reality as a discource کا باہمی ربط، فلاسفہ و متکلمین کی طرح ان کا بھی موضوع ہے لیکن یہ حضرات اس ربط کو فہم و تعقل نہیں بلکہ ایک انفعالی تجربیت کے ذریعے سے دریافت کرتے ہیں جو حس و محسوس کی اِسی نسبت بین الطرفین پر قائم ہے جس سے ہم مانوس ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ صوفیانہ تجربے میں طرفین کی مغائرت واقعتا ناگزیر اور واجب الاثبات ہونے کے باوجود اعتباری ہے۔ مکمل انفعال جو علم الحقائق کی لازمی شرط ہے، اس کا حصول ایک طرف تو طرفین کی غیریت کا متقاضی ہے اور دوسری طرف عینیت کا۔ غیریت نہ ہو تو انفعال کا بیج ہی نہیں پڑ سکتا، اور عینیت نہ ہو تو اس کی تکمیل محال ہے۔ اس paradox کو حل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ غیریت اعتباری ہے اور عینیت حقیقی۔ صوفیہ نے اس طریقے کو کام میں لا کر علم الحقائق کے راستے میں آنے والی اُن رکاوٹوں کو گرانے میں خاصی کامیابی حاصل کی جنھوں نے اہلِ فلسفہ و کلام کو بے دست و پا کر رکھا تھا، مثلاً یہی مسئلۂ زمان و مکاں دیکھ لیں۔ فلاسفہ کو ان کی ازلیت و ابدیت کے اقرار پر مجبور ہونا پڑا اور متکلمین کے پاس اس کے سوا کوئی راستا نہیں رہ گیا تھا کہ وہ time-space کو عالمِ خلق سے اوپر کے مراتب میں سرے سے موجود ہی نہ مانیں۔ صوفیہ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ انھیں یہ مجبوریاں لاحق نہیں ہوئیں۔ ان کا موضوع ہے: حقیقت باعتبارِ تعینات، یا بالفاظ ِ دیگر مراتبِ ظہور ۔۔۔۔ اس موضوع میں ایسی وسعت ہے کہ time-space کے دائرے کو جتنا چاہے بڑھا لیا جائے، رہتا اس کے اندر ہی ہے۔ یعنی time-space بلحاظِ ماہیت و فعلیت، ظہور کے ایک خاص درجے سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ زمان و مکاں، وجود کی شرط نہیں بلکہ ایک نسبت ہے اور اس حیثیت میں اُس کا حکم بدلتا رہتا ہے۔ اس کا درجہ ایک سلبی حوالے کا سا ہے جو اعتبار کے اصول کو متعین کرتا ہے اور تحققِ حقیقت کی حرکتِ دوری یعنی تشبیہ تنزیہ، تنزیہ میں تشبیہ کا درمیانی وقفہ/ عرصہ اسی پر مدار رکھتا ہے۔ اپنے ان حدود میں صوفیہ کے نزدیک زمان غیر متناہی ہے مگر مظہرِ کثرت ہے، جب کہ مکاں مظہرِوحدت ہے مگر محدود ہے۔ یہ دونوں، ازروئے ماہیت، ایک دوسرے پر over lap کرتے ہیں، یعنی زمان کی غیر متناہیت مکاں کے حوالے بغیر متحقق نہیں ہوسکتی اور اسی طرح مکاں کی محدودیت بھی ایک گہرے معنی میں زمانی ہے۔ یہی حدوث کی حقیقت ہے کہ time space یک اصل اور ہم احتوا ہو کر درجۂ امتیاز اور مرتبۂ فعل میں باہم معرّف بنیں اور ایک دوسرے کے حدود و قیود کو نہ صرف یہ کہ واضح کریں بلکہ انھیں اپنے لیے بھی قبول کریں۔
تصوف جس علم الحقائق کا وارث ہے وہ دو ایسے مراتب کو محیط ہے جن میں سے ایک عالم کی جہت سے اس کے علمی تعین کی ایسی تشکیل کرتا ہے جو مفیدِ اثبات ہو اور بعض پہلوئوں سے قابلیتِ نفی بھی رکھتی ہو۔ اس کا دوسرا مرتبہ معلوم کی جہت سے ہے، جہاں حقیقت معلومہ وجوداً متعین ہوتی ہے۔ اس تعین میں وجود حقیقی ہے اور مابہ التعیین اعتباری۔ صوفیہ کو آغاز ہی میں یہ سہولت میسر آگئی کہ صحت فکر و استدلال کے تمام منطقی لوازم و معیارات کو ملحوظ رکھتے ہوئے حقیقت کے تقابل میں انھوں نے ایک ایسا paradox وضع کیاجس کی درست تفہیم کے بغیر حقیقت کا کوئی تصور قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جس سہولت کا ہم نے ابھی ذکر کیا اس کا ایک اظہار time-space کے مسئلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک صوفی کے لیے یہ سمجھنے اور ماننے میں کوئی منطقی الجھن نہیں ہے کہ زمان و مکاں کا تعلق ’’موثر ہونے یا اثر پذیر ہونے‘‘ کی جہت سے اقلیم تشبیہ ہی سے ہے اور تشبیہ ضرورتِ ادراک ہے، ضرورتِ وجود نہیں۔ یہ خیال رہے کہ تشبیہ محض طبیعیات تک محدود نہیں ہے بلکہ مابعد الطبیعی امور بھی اس میں داخل ہیں۔ تشبیہ کا اصول یہ ہے کہ صورت اپنے امتیاز کو محفوظ رکھتے ہوئے معنی پر ایسی دلالت کرے جو طرفین میں لزومِ عینیت کا شبہ نہ پیدا کرے۔ چونکہ ادراک اپنی ہر نوع میں بامعنی صورت کے حصول ہی کا نام ہے لہٰذا مدرکات حقائق پر دال تو ہیں لیکن نفسِ حقیقت سے ان کی مغائرت مستقل ہے اور حقیقت کے ذاتی مرتبے میں یہ اپنی ہر نسبت کے ساتھ ساقط ہیں۔ اسی لیے جب صوفیہ حقیقت کے ورائے ظہور مراتب میں زمان ومکاں کی نفی کرتے ہیں تو اس سے کوئی منطقی خلل بھی واقع نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود مدارجِ ظہور کی تبدیلی سے بھی شے کا وصف نہائی منقلب ہوجاتا ہے۔
مختصر یہ کہ متقدمین میں حقیقت کا تنزہ مانع تھا زمان و مکاں کی ماہیت متعین کرنے سے۔ وہ حضرات اس امتیاز کو ایمان کے فطری اسلوب میں حل کرچکے تھے اور یہ اسلوب اپنے بیان میں مجروح ہوجاتا۔ متوسطین نے حقیقت کی تنزیہ کو برقرار رکھتے ہوئے تشبیہ کو اس کی طرفِ توازن بنایا تو زمان و مکاں کی ایک اضافی معنویت پر غور کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ گویا متقدمین کا مسئلہ ایمان تھا تو متوسطین کا اثبات۔ متاخرین نے ضروریاتِ ادراک کو ترجیح دیتے ہوئے تنزیہ کو تشبیہ میں کھپا کر حقیقت کو ایک نیم تجسیمی جہت دے دی، جس کی وجہ سے زمان و مکاں حقیقت اور ناظرِ حقیقت کے درمیان ایک اٹل برزخ بن گئے اور تحقق حقائق کی تمام سرگرمیاں اسی مدار کے گرد گھومنے لگیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ حقیقت کا خارجی تعین اپنی کلیت کے ساتھ جب ذہن میں منتقل کیا جانے لگا، یا ذہن کے خلقی مطالبات کی تکمیل کے لیے صرف ہونے لگا تو زمان و مکاں بطور ایک episteme کے ہر مرحلۂ اثبات پر ناگزیر ہوگئے، اور نتیجتاً تنزیہ غیر حقیقی یا کم از کم غیر متعلق ہو کر رہ گئی۔
اقبال اپنی بنیادی خصوصیات کی وجہ سے متاخرین میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا تصور زمان و مکان جو دراصل ان کے فلسفۂ خودی کا ایک جزو ہے، اس کی تشکیل میں جدید طبیعیات، نفسیات اور حیاتیات سے پھوٹنے والے فلسفے کا کردار بہت مرکزی اور بنیادی ہے۔ اقبال گو کہ اس سے مابعد الطبیعی اور اخلاقی نتائج نکالتے ہیں تاہم خودی کی طرح یہ تصور بھی اپنی نوع میں انسانی اور تشبیہی ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا شمار ان جدید ترین مفکرین میں ہوتا ہے جو انا اور وقت کے کائناتی تلازم کو نہ صرف یہ کہ حقیقی سمجھتے ہیں بلکہ ذات کے الوہی مراتب میں بھی زمانیت کی کسی نوع کو کارفرما دیکھتے ہیں، اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج پر اہلِ مابعد الطبیعیات کی تشویش کو در خورِ اعتنا نہیں گردانتے۔
اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ یہ کہ اُن کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔ علامہ نے اپنے تمام بنیادی مباحث کی طرح مسئلۂ زمان و مکاں کو بھی اپنی شاعری کا ایک بڑا theme بنایا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطۂ نظر کو اقبال کا حتمی نقطۂ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟
کسی تفصیلی تجزیے میں جانے سے پہلے اگر ہم کوئی ایسا سبب تلاش کرسکیں تو بہتر ہوگا جس نے اقبال کی مجموعی فکر کو چند ناقدین کی رائے میں، جو ہمارے خیال کے مطابق نہ پوری درست ہے نہ پوری غلط، واضح طور پر دو خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ان کو جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کار فرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی رائے پر نظرِثانی کی اور بعض معاملات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دولختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریں گے۔ سرِدست مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورِ زمان و مکاں پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے جس میں تجزیے کے دوران میں پیش آنے والے اختلافات پر پیشگی توجہ نہ کی جائے۔
اقبال بعض فلاسفۂ متوسطین کی طرح زمانے کو قدیم تو نہیں کہتے مگر حرکت کو حقیقت کا جوہرِ ذاتی قرار دینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ مزید مشکل اُس وقت پیدا ہوجاتی ہے جب وہ اس خیال کا اثبات ذاتِ انسانی کو وقت کی اس جہت سے متعلق کرکے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسے مراتبِ الہیہ سے نسبت پیدا کرنے کے لیے درکار ہے یعنی دورانِ محض۔ کم از کم خطبات کی حد تک اقبال کے پیشِ نظر یہ بھی تھا کہ حقیقت زمان و مکاں تک پہنچنے کا وہ راستہ کس طرح ڈھونڈا جائے جس پر چل کر زمان و مکاں کی طبیعی تعریف اور مابعد الطبیعی تعبیر کو ایک کیا جاسکے۔ اس انداز نظر کا تجزیہ بہت ضروری ہے جو شے کی تعریف طبیعیات سے اخذ کرتا ہے اور تعبیر مابعد الطبیعیات سے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مرحلے پر اگر شاعر اقبال کی کمک فراہم نہ ہوتی تو ہم بری طرح فلسفی اقبال میں الجھ کر رہ جاتے۔ خطبات میں مختلف علوم کے حاصلات و غایات اور مقدمات و نتائج اکثر مقامات پر اس بری طرح خلط ملط ہیں کہ پڑھنے والا اتنا حیران ہوجاتا ہے کہ وہ متعین کرکے یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ الجھن کہاں واقع ہوئی ہے اور کیا ہے۔ جدید علمیات کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے اقبال زمان و مکاں کو وجود کی لازمی شرائط سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی فکر کے سیاق و سباق میں حقیقت کا زمانی مکانی ہونا ناگزیر ہے۔ دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اس ضرورت کا اطلاق دینی اخلاقی اور مابعد الطبیعی disciplines پر بھی کرنے لگتے ہیں۔ دینی فکر کی کوئی بھی قسم ہو اس میں غیب حقیقی اور مطلق ہے۔ یہاں حقیقت بر بنائے معلومیت واجب الاثبات نہیں ہے بلکہ بربنائے موجودیت۔ علاّمہ موجودیت اور معلومیت کے اس انتہائی امتیاز کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا اُسے رفع کرنے کی ایسی کاوش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقت پر اس کا مظہر بلکہ ذہنی مظہر غالب آجاتا ہے اور حقیقت کے علمی ہی نہیں ذاتی حدود بھی اسی سے متعین ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے غزالی مانیں گے نہ کانٹ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف علوم کی purity کے جو نمائندوں کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غزالی کا ورائے علم، یقین و اثبات ہو یا کانٹ کا یہ دعوا کہ حقیقت موجود ہونے کے باوجود ممتنع العلم ہے، مابعد الطبیعی مباحث میں اقبال کے لیے واضح طور پر بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں وہ کہیں شدت سے اور کہیں احتیاط سے گراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اُن کی شاعری ہے جس نے حقیقت کے معلوم ہونے کی بجائے موجود ہونے پر اصرار کیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اصرار کے لیے جو اخلاقی تحکم اور تخلیقی تخیلی درکار ہے وہ شاعری ہی میں فراہم ہوسکتا ہے۔ ہمیں غور سے دیکھنا پڑے گا کہ ایک ہی موضوع پر approach کا ایسا فرق جسے کسی دلیل سے رفع نہیں کیا جاسکتا اقبال کے ہاں کیا معنویت رکھتا ہے۔
اگر زمان و مکاں کے مسئلے پر focus کرکے دیکھیں تو بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ اس موضوع پر مفکر اقبال اور شاعر اقبال ہم رائے ہیں۔ خطبات اور شاعری متفق ہیں کہ زمانہ مختلف مراتب رکھتا ہے اور اس اختلاف کی ہر سطح حقیقی ہے۔ نیز موجودیت کا کوئی بھی درجہ ہو، زمانے کو وہاں سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری رائے میں یہ اتفاق اجمال میں ہے، تفصیل میں نہیں، اور ایسا ہونا فطری ہے۔ فلسفیانہ تفکر اور شعری تخیل اور اخلاقی اذعان میں ایسا اتفاق محال ہے جو انھیں جز بہ جز عینِ یکدیگر بنا دے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم خطبات میں اظہارپانے والے تصورِ زمان و مکاں کی تشقیق کریں گے اور پھر یہ کہ شاعری اس جز میں خاموش ہے یا متفق ہے یا مختلف۔ اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو یہ دیکھیں گے کہ خطبات یا شاعری میں اس مسئلے پر کوئی ایسی چیز تو نہیں ملتی جس سے دوسرا خالی ہو۔
۱۔ زمانہ ایک organic whole ہے (۱)
۲۔ زمانہ اشیا کے جوہرِ نہائی کا صورت گر ہے (۲)
۳۔ زمانہ شانِ خلق کا مظہر ہے: (۳)
۳۔ وجودِ حق کا زمانہ، زمانِ حقیقی ہے، جس میں رہ کر وہ serial time کو جز بجز تخلیق کرتا ہے (۴)
کائنات ایک آزاد تخلیقی آن ہے (۵)
۵۔حقیقتِ نہائی= دورانِ محض (۶)
۶۔ زمان بطورِ خط پر تنقید (۷)
۷۔ تغیر کی نوع (۸)
مندرجہ بالا اقتباسات اقبال کے تصورِ زمان کے تمام ضروری اجزا کا احاطہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس مسئلے کی حد تک اُن کے خیالات، خواہ شعر میں ظاہر ہوئے ہوں یا نثر میں، کسی قابلِ ذکر تبدیلی یا اختلاف پر دلالت نہیں کرتے۔ اُن کا بنیادی مؤقف شروع سے آخر تک ہر جگہ ایک ہی رہا۔ اُن کے فکر و خیال سے تفصیلی واقفیت رکھنے والوں کے لیے یہ یکرنگی بعض وجوہ سے خوش گوار ہونے کے باوجود قدرے غیر متوقع بھی ہے۔ تکنیکی مہارت اور وقوفی گہرائی میں رفتہ رفتہ ہونے والے ناگزیر اضافے کو نظر انداز کردیا جائے تو خطبات میں اقبال جس تصورِ زمان تک پہنچے ہیں وہ اصولاًـ وہی ہے جو پندرہ سولہ برس پہلے اسرارِ خودی میں بیان ہوچکا تھا۔
گردش گردون کردٰن دیدنی است
انقلابِ روز و شب فہمیدنی است
ای اسیرِ دوش و فردا در نگر
در دلِ خود عالمِ دیگر نگر
در گِل خود تخمِ ظلمت کاشتی
وقت را مثلِ خطی پنداشتی
بازبا پیمانہ ی لیل و نہار
فکرِ تو پیمود طولِ روزگار
ساختی این رشتہ را زنّار دوش
کشتہ نی مثلِ بتان باطل فروش
کیمیا بودی و مشتِ گل شدی
سرِّ حق زائیدی و باطل شدی
مسلمی؟ آزاد این زنار باش
شمعِ بزم ملّتِ احرار باش
تو کہ از اصلِ زمان آگہ ز نی
از حیاتِ جاودان آ گہ ز نی
تا کجا در روز و شب باشی اسیر
رمزِ وقت ازلی مع اللہ یاد گیر
این و آن پیداست از رفتارِ وقت
زندگی سرّیست از اسرارِ وقت
اصل وقت از گردشِ خورشید نیست
وقت جاوید است و خور جاوید نیست
عیش و غم عاشور و ہم عید است وقت
سرِّ تابِ ماہ و خورشید است وقت
وقت را مثلِ مکان گستردہ ئی
امتیازِ دوش و فردا کردہ ئی
ای چوبودم کردہ از بستان خویش
ساختی از دستِ خود زندان خویش
وقتِ ماکو اوّل و آخر ندید
از خیابانِ ضمیرِ ما دمید
زندہ از عرفان اصلش زندہ تر
ہستی او از سحر تابندہ تر
زندگی از دہر و دہر از زندگی است
لاتسبو الدہر فرمانِ نبی است
(۹)
ان اشعار سے وقت کے بارے میں مندرجہ ذیل تصورات اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ وقت اپنے ابتدائی اور عام تصور میں حرکتِ مکاں کے مترادف ہے۔
۲۔ وقت تجربی دائرے میں حرکت اور تغیر کا نام ہے۔
۳۔ دوش و فردا وقت کی مصنوعی تقسیم سے قائم ہونے والے مفروضے ہیں، ان کا وقت کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
۴۔ وقت کی حقیقت کو apprehend اور experience کیا جاسکتا ہے۔
۵۔ وقت اور خودی لازم و ملزوم ہیں۔
۶۔ وقت کو subjectivize کرکے ہی اس کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہے۔
۷۔ وقت کے phenomenal حدود تک محدود رہنے سے انسان کے داخلی اور وجودی امکانات پر بھی روک لگ جاتی ہے۔
۸۔ وقت serial نہیں ہے ورنہ علم کا کوئی جواز رہے گا نہ وجود کا۔
۹۔ زمان و مکاں کا پیمانہ فکر کا وضع کردہ ہے جو اُن کی حقیقت تک رہنمائی نہیں کرتا۔
۱۰۔ وقت اپنی متداول تقسیم میں ایک افقی چیز ہے جو حقیقت کا container تو کیا experience بھی نہیں بن سکتی۔
۱۱۔ انسانی خودی اپنی ماہیت میں وقت کی حقیقت سے ہم آہنگ ہے۔ وقت کا زمینی تصور اس کو بھی متاثر کرتا ہے۔
۱۲۔ آدمی اپنی ذات پر غور کرکے زمان کی مابعد الطبیعی جہت تک پہنچ سکتا ہے۔
۱۳۔ وقت کی phenomenal حد کو توڑے بغیر اللہ پر ایمان اور اُس کے ہونے کا اثبات بے معنی بلکہ محال ہے۔
۱۴۔ خود انسانی ارادے، اختیار اور آزادی کا تقاضا ہے کہ وقت حرکت و تغیر کے کسی جبری سسٹم سے عبارت نہ ہو۔
۱۵۔ وقت اپنی اصل میں حدوث سے نہیں بلکہ قدم سے مناسبت رکھتا ہے۔
۱۶۔ انسانی خودی اپنی اصل میں زمان کے الٰہیاتی مراتب کو apprehend کرنے کی خلقی استعداد رکھتی ہے۔
۱۷۔ عالمِ طبیعی میں وجود اور زندگی حقیقتِ وقت کے جزوی مظاہر ہیں۔
۱۸۔ وقت اپنی اصل میں مکانی نہیں ہے۔ یہ ان تمام مکانی objects سے ماورا ہے جو اس دنیا میں اُس کے محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۱۹۔ وقت مکان کی نسبت سے مقدارِ حدوث ہے، یہ نسبت رفع ہوجائے تو خود وقت اور اِس کے وجودی متعلقات قدیم ہیں۔
۲۰۔ جوش و فردا کا امتیاز اُس شعور کا پیدا کردہ ہے جو چیزوں کو مکانی terms میں دیکھتا ہے۔
۲۱۔ عالمِ صورت میں مکان زمان پر غالب ہے جب کہ عالمِ معنی میں یہ غلبہ زمان کو حاصل ہے۔ اسی لیے حقیقت اپنے مزاج میں مکانی سے زیادہ زمانی ہے۔
۲۲۔ اصل وقت جس کا کوئی اوّل و آخر نہیں، انسان اُس کا داخلی تجربہ کرسکتا ہے۔
۲۳۔ حقائق کی سطح پر وقت اور وجود عینِ یک دیگر ہیں۔
ان میں کوئی ایک نکتہ ایسا نہیں ہے جس کی صراحۃً یا کنایتہ خطبات سے تصدیق نہ ہوتی ہو، بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلکہ خطبات میں زمان کا جو مجموعی تصور ملتا ہے وہ ان نکات پر کوئی اصولی اضافہ نہیں کرتا۔ اس لیے اگر ہم اقبال کے تصورِ زمان و مکاں کے اساسی پہلوئوں کی نشان دہی کے عمل میں خطبات تک محدود نہ رہیں تو بھی یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ فلاں بات کہیں خطبات سے متصادم نہ ہو۔
اس مبحث میں علامہ کے حتمی مؤقف کی تعیین اور اس کے تجزیے کے لیے چند سوالوں سے گزرنا ناگزیر ہے، مثلاً وہ کون سی علمی غرض ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ زمان و مکاں کی ایک نئی تعبیر کے متلاشی ہیں؟ اور کیا وہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی؟ نیز خود وہ جس تعبیر تک پہنچے کیا اُس سے اُن کی غرض پوری ہوتی ہے؟
ہمارے نقطۂ نظر سے ان کے جوابات یہ ہیں:
۱۔ ذاتِ الٰہیہ سے زمان و مکاں کو جو شرائطِ وجود ہیں، کیا نسبت ہے؟ اس نسبت کو جدید ذہن کے لیے قابلِ قبول استدلال کے ساتھ واضح اور ثابت کرنا۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ علمی غرض جو اس مسئلے پر غور و فکر کا محرک بنی۔
۲۔ یہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کیوںکہ اُن کی بنیاد جس episteme پر تھی، وہ کلیۃً غیر مؤثر ہوچکا ہے۔
۳۔ خود اقبال کی وضع کردہ تعبیر بعض essential lackings کی وجہ سے یہ غرض پوری کرنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی۔
اب ان کی تفصیل:
مابعد الطبیعیات، خواہ بطورِفلسفہ و کلام ہو یا بطور Gnosticism، اپنی تمام سرگرمیاں ایک ہی مسلّمے سے شروع کرکے اُسی پر ختم کرتی ہے۔ وہ مسلّمہ ہے: وجودِ خداوندی جو فلسفے میں معقول، کلام میں مفہوم اور Gnosticism میں محسوس ہے۔ تعقل، فہم اور احساس کا امتیاز ایک ہی object کو کس طرح ایک نہیں رہنے دیتا۔ اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے ہم گفتگو کا آغاز یہیں سے کریں گے کہ مابعد الطبیعیات کے یہ تینوں ڈسپلن جب دین کے تصورِ الٰہ کو تسلیم کرکے اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اُس کی تحقیق کرنے نکلتے ہیں تو اسے اپنے داخلی مطالبات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے فلسفہ ایک Ontology تشکیل دینا چاہتا ہے جس سے نظامِ عالم کی اصل عقلاً متحقق ہوجائے۔ وجودِ خداوندی اس کی پوری گنجائش رکھتا ہے کہ ذاتیت کو منہا کرکے بھی نظامِ عالم کی معقول اصل بن سکے۔ کلام چاہتا ہے کہ دین کے discource of the divinity کی تفہیم ممکن ہوجائے اور ذات و صفات اور اس طرح کے دیگر مسائل میں دینی حجیت، منطقی صداقت بھی بن جائے۔ اسی طرح Gnosticism کا مقدمہ ہے کہ وحدتِ ذاتی لازماً وجودی، مطلق اور عام ہوگی اور اسے موجودیت کی کسی سطح پر بھی کسی شرکت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس وحدت کو اللہ کے لیے ثابت کرکے تمام مظاہرِ کثرت سے مستقل وجود کی نفی کردی جائے۔
عقلی اور وجدانی شعور کے یہ مطالبات، وجود اور اس کی حقیقت و ماہیت پر غور کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتے۔ فلسفے میں وجود، مابہ الموجودیت ہے جس میں چند اوصاف لازمی ہیں:
۱۔ واحد ہو
۲۔ معقول ہو
۳۔ مسبوق بالعدم نہ ہو
۴۔ اسے عالمِ کثرت کا مصدر و منبع بنایا جاسکتا ہو
اس میں ذاتیت، علم، اختیار اور ارادہ چنداں ضروری نہیں۔ فلسفے میں وجود کو موجود پر تقدم حاصل ہے۔
اہلِ کلام کے ہاں وجود بمعنی مصدری ہے یعنی بودن۔ اس کی ماہیت موجود سے متعین ہوتی ہے، مثلاً موجود حقیقی اور قدیم ہے تو وجود بھی حقیقی اور قدیم ہوگا۔
Gnostics بھی فلاسفہ کی طرح وجود کو مابہ الموجودیت ہی سمجھتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کے نزدیک وجود و موجود identical ہے اور ان کی عینیتِ محض کا نقطہ جس میں دوئی نظری presence بھی نہیں رکھتی، ذاتِ الٰہیہ ہے۔ چونکہ عینیت کا خاصہ ہے کہ یہ اپنے افراد و مشمولات سے ماورا ہوتی ہے لہٰذا ذاتِ الٰہیہ وجود اور موجود دونوں سے ماورا ہے۔
فلسفہ کسی ایسی صورتِ حال کو تسلیم نہیں کرسکتا جس میں وجود، عدم کے بعد ہو۔ اگر زمان و مکاں کو کسی مرحلے پر ساقط کردیا جائے تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا: عدمِ محض۔ اس لیے عقل زمان و مکاں کو شرطِ وجود قرار دیتی ہے اور وجود کے کسی بھی مرتبے کو اس سے خارج کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ موجودیت خواہ کسی بھی معنی اور مرتبے میں ہو، ماورائے زمان و مکاں نہیں ہوسکتی اور زمان و مکاں بھی واقعیتی فرق کو تو قبول کرسکتے ہیں مگر اپنی بنیادی اور ذاتی تعریف سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل، دینی حقائق کو مان لینے کے باوجود، وقت اور مادّے کی قدامت کا انکار نہیں کرسکتی۔ گو کہ اکثر مسلمان فلاسفہ اس قدامت کو قدمِ ذاتِ الٰہیہ سے ممتاز کرتے ہیں، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ فلسفے کی سچی نمائندگی کرتے ہیں نہ دین کی۔
دوسری طرف متکلمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عقل کو فہم و استدلال کے دائرے میں محدود کرکے اُسے اثباتی معنی میں text oriented بناتے ہیں۔ کلام کا مقصود بس اتنا ہے کہ دینی حقائق کو ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل، دینی حقائق کو نہ ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل پر حتماً غالب آجائیں اور یہ غلبہ ایک متفقہ اور مسلّمہ قانونِ استدلال پر استوار ہو۔ متکلمین کے نزدیک عدم، لاوجود کا نام نہیں ہے بلکہ لاموجود کا۔ اس لیے یہ مطلق نہیں ہے بلکہ اضافی اور انفرادی ہے، لہٰذا کسی چیز کا مسبوق بالعدم ہونا اہلِ کلام کے لیے وہ مشکلات نہیں پیدا کرتا جو فلاسفہ کو پیش آتی ہیں۔
زمان و مکاں کے بارے میں فلسفیانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ زمان ظرفِ وجود ہے اور مکاں ظرفِ موجود۔ اوصافِ وجود میں جو وصف سب سے زیادہ مستقل ہے، وہ زمانیت ہے، اور اوصافِ موجود میں وہ وصف مکانیت ہے۔ ذاتِ باری حقیقتِ وجود کے ساتھ موجود فی الخارج ہے تو ازروئے عقل اُس کا زمانی مکانی ہونا ضروری ہے ورنہ اُس کا کمال غیر متحقق رہ جائے گا۔ کلامی مؤقف یہ ہے کہ وقت وجود کی داخلی حرکت کا پیمانہ ہے اور مکاں اُس کے خارجی حدود کا تعین۔ حرکت اور محدودیت چونکہ ذاتِ الٰہ کے کمال کے منافی ہیں لہٰذا وہ زمانی ہے نہ مکانی۔ Gnosticism وجود و موجود اور زمان و مکاں کی لزومی نسبت کو فلاسفہ کی طرح تسلیم کرکے ذاتِ الٰہیہ کے وجود و موجود سے ماورا ہونے کا جو عقیدہ رکھتا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اُس ذات سے زمانیت اورمکانیت کی نفی ہوجائے۔ اس کے بغیر ذاتِ باری کی تنزیہ ثابت نہیں ہوسکتی۔
مختصر یہ کہ زمان و مکاں کے مبحث میں اسلامی فکری روایت متوازی یا ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے خطوط کی صورت میں جتنا سفر طے کرچکی ہے، اقبال نے اُس کے آخری مراحل میں سے بھی چند ہی کو گفتگو کو مستحق گردانا۔ فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل کا ڈول ڈالنے کے لیے گو کہ اس روایت کی صورت گری کرنے والے تمام عناصر کو گرفت میں لینا ضروری تھا تاہم علامہ نے کسی وجہ سے اس کے بڑے حصّے کو نظر انداز کردینا مناسب سمجھا۔ اس موضوع پر انھوں نے جن تصورات کو تائیداً یا تردیداً quote کیا ہے، اُن پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے:
اشاعرہ کا تصورِ زمانِ جوہری جو دراصل اُن کی الٰہیات کا ایک بنیادی حصّہ ہے، چند نازک مسائل کے حل کے لیے وضع کیا گیا تھا، مثلاً حیاتِ باری تعالیٰ کی ماہیت کیا ہے، اُس کا علم کس طرح کا ہے، کائنات کیسے خلق ہوئی؟ ربط الحادث بالقدیم کی نوعیت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آنات کو جواہر قرار دے کر انھوں نے مابعد الطبیعی ذہن کی کئی مشکلات رفع کیں اور اسے کچھ ایسے دلائل فراہم کیے جو ایک پہلو سے طبیعی بھی ہیں اور منطقی بھی۔ اس نظریے میں یقینا بہترے نقائص ہیں لیکن اس کا امتیاز اور اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مابعد الطبیعی ذہن کو وہ tool فراہم ہوگیا جسے استعمال کرکے زمان و مکاں کے حدود مقرر ہوسکتے ہیں، اور یہ مسئلہ غیر حقیقی ہوجاتا ہے کہ وجودِ باری زمانی مکانی ہے یا نہیں؟ اشاعرہ بلاشبہ اس نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ جب تک زمان و مکاں کو ایک ہی وجودی ترکیب پر مشتمل و مبنی ثابت نہیں کیا جائے گا، ان کی قدامت اور مستقل لزو م کی تردید محال ہے۔ ہمیں یقین سے تو نہیں معلوم، لیکن یہ اندازہ بہرحال کیا جاسکتا ہے کہ وقت میں ایک طرح عنصریت کا اثبات اور اس کی ایک منظم ساخت کی عکاسی کرکے اشاعرہ نے نفس زمان میں وہ مکانیت دریافت کی ہے جس سے عاری ہو کر کوئی شے موجود اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اور یہی مکانیت ہے جو زمانے کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے۔ نیز آن کو جوہرِ سادہ کہہ کر اشعریوں نے ان امور کو قابلِ استدلال بنا دیا:
۱۔ حرکت و تغیر اور تسلسل و توالی، زمانے کے مستقل اور ذاتی اوصاف نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت اعراض کی ہے۔
۲۔ آن جو مخ الزمان ہے essentially معدوم اور phenomenally موجود ہے۔ اس لیے زمانہ جو مجموعۂ آنات ہے ریاضیاتی پیمانے سے غیر متناہی ہونے کے باوجود قدیم یعنی لااوّل و الآخر نہیں ہوسکتا اور قابلیتِ عدم اس میں بھی پائی جائے گی۔
۳۔ آن body of time ہے جس کی بنیاد پر وقت معدودیت، تحدید اور تجزیے کو قبول کرتا ہے اور موجودیت فی الخارج کی کونیاتی شرط یعنی مکانی پن کو بھی پورا کرتا ہے۔
۴۔ وقت noumenally ہی نہیں structurally بھی ساکن ہے۔ اُس کے mechanism کی نسبت اُس کی ماہیت سے نہیں بلکہ خالقِ مطلق کے تخلیقی ارادے اور قدرت سے ہے۔ یہ اُن کا مظہرِ اوّل ہے۔
۵۔ زمانہ، تابع موجود ہے یعنی Essence یا خودی کو اس پر تقدم حاصل ہے البتہ وہ تقدم principial ہے نہ کہ phenomenal۔
مختصر یہ کہ مکانیت کو زمان اور زمانیت کو مکاں کی ماہیت میں داخل کرکے اشاعرہ نے ان کی عینیت و غیریت کو جس طرح آپس میں گوندھ دیا ہے وہ مسلم فکر کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہ نظریہ تشکیل نہ پاتا تو وجود کی زمانیت اور مکانیت کا قضیہ ایک مطلق حکم کے طور پر برقرار رہتا اور مابعد الطبیعی discource کا امکان ماند پڑ جاتا۔
اقبال atomic time کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ اُن کے اعتراضات کی نوعیت ان اقتباسات سے واضح ہے:
1, 'In fact the Ash`arite vaguely anticipated the modern notion of point-instant; but they failed rightly to see the nature of the mutual relation between the point and the instant... The point is not a thing, it is only a sort of looking at the instant.' ۱۰؎
2- 'Thus a criticism, inspired by the best traditions of Muslim thought, tends to turn the Ash'arite scheme of atomism into a spiritual pluralism..." ۱۱؎
3- 'Time, according to the Ash‘arite, is a succession of individual ‘nows’. From this view it obviously follows that between every two individual ‘nows’ or moments of time, there is an unoccupied moment of time, that is to say, a void of time. The absurdity of this conclusion is due to the fact that they looked at the subject of their inquiry from a wholly objective point of view. ۱۱۔ ا؎لف
4- '... the constructive endeavour of the Ash ‘arite, as of the moderns, was wholly lacking in psychological analysis, and the result of this shortcoming was that they altogether failed to perceive the subjective aspect of time. It is due to this failure that in their theory the systems of material atoms end time-atoms lie apart, with no organic relation between them. ۱۱۔ ب ؎
5- 'It is clear that if we look at time from a purely objective point of view serious difficulties arise; for we cannot apply atomic time to God and conceive Him as a life in the making. ۱۱۔ ج ؎
اسی طرح کے اعتراضات ہیں جن کی بنا پر اشاعرہ کے نظریۂ تخلیق کے بعض گوشوں کو سراہنے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود ۱۲؎ علامہ Atomic time کے تصور کو سرے سے رد کردیتے ہیں۔۱۳؎ اس معاملے میں ہم نے اپنی رائے نمبروار پہلے ہی عرض کردی ہے لہٰذا اقبال کی تنقیدات پر خاص طور سے تبصرہ کرنا غیر مناسب محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اتنا کہنے میں شاید کوئی حرج نہ ہو کہ اس مسئلے پر اقبال نے اشاعرہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعرہ کا نظریہ ذات یا خودی اور زمان کی لازمی نسبت پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا کیوںکہ یہ objective بہت ہے، یعنی اشعریوں کا زمان یک سطحی ہے جو مثال کے طور پر زمانِ الٰہیہ کی نوعیت سمجھنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ ۱۴؎
اشاعرہ کی اس کمی پر خود مسلم روایت سے دلیل لانے کے لیے اقبال، عراقی اور دوّانی کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے برعکس زمان و مکاں کی اضافیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ۱۵؎
یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ’غایتہ الامکان‘ صوفی شاعر فخر الدین عراقی کی تصنیف نہیں ہے، اس کے مصنف محمود اشنوی ہیں اور ملا جلال الدین دوانی اضافیتِ زمان و مکاں کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس معاملے میں اُن کا مؤقف وہی تھا جو اسلامی فلسفے کے بعض ائمہ مثلاً ابنِ رشد وغیرہ کا تھا، یعنی جو وجود متحرک، متغیر اور محدود نہیں ہے، زمان و مکاں اُس کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے ’’زوار‘‘ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
گو کہ نتیجے کے اعتبار سے اشنوی کا مؤقف روایتی ہی ہے لیکن اُس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ انھیں اس مبحث پر وہ گرفت، مہارت اور بصیرت میسر نہیں تھی جو بڑے لوگوں میں نظر آتی ہے۔ زمان و مکاں کی اضافیت، مسلم فکر و عرفان کے تقریباً مسلمات میں سے ہے مگر لگتا ہے کہ اشنوی نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں اور اس اضافیت کی اندرونی مطلقیت سے تجاوز کرکے اور نفسِ اضافیت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے انفعانی جہت ہی سے سہی، مطلق پر بھی وارد کردیا حالانکہ اضافی کا مطلب ہی یہ ہے کہ مرتبۂ اطلاق میں اس کا عدم ضروری ہے۔ حرکت، تسلسل اور تغیر منہا ہو کر بھی زمانہ اگر لائقِ اثبات، بلکہ وجود کی لازمی نسبت کے طور پر موجود رہتا ہے تو بعض ایسی مشکلات پیدا ہوجائیں گی جو مابعد الطبیعی فکر کے لیے بھی لاینحل ہیں۔
جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو وہ اس نظریے کو قدرے پسندیدگی اور ہم دردی سے دیکھنے کے باوجود من و عن قبول نہیں کرتے۔ اس پر اُن کی جو رائے ہے اُس کے بنیادی اجزا یہ ہیں:
1- '...... a cultured Muslim sufi intellectually interpreted his spiritual experience of time and space in an age which had no idea of the theories and concepts of modern Mathematics and Physics,' (۱۶)
2- Iraqi is really trying to reach the concept of space as a dynamic appearance.' (۱۷)
3- 'His mind seems to be vaguely struggling with the concept of space as an infinite continum; yet he was unable to see the full implications of his thought partly because he was not a mattienatician and party because of his natural prejudice in favour of the traditional Aristotelian idea of a fixed universe.' (۱۸)
4- A keener insight into the nature of time would have led Iraqi to see time is more fundamental of the two....' (۱۹)
5- Iraqi's mind, no doubt, moved in the right direction, but his Aristotelian prejudices, coupled with a lack of psychological analysis, blocked his progress.' (۲۰)
6- With his view that Divine Time is utterly devoid of change.... it was not possible for him to discover the relation between Divine Time and serial time and to reach, through this discovery, the essentially Islamic idea of continuous creation which means a growing universe.' (۲۱)
حوالے قدرے طویل تو ہوگئے مگر ہم یہیں ایک ضروری نکتے پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں، اور وہ یہ کہ ہماری رائے میں اقبال اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ مسلمان فلاسفہ و متکلمین ہوں یا صوفیہ، اللہ کی نسبت سے زمان و مکاں کے باب میں چند امور پر اس طرح متفق ہیں کہ ان کے داخلی اختلافات بھی یہاں ایک طرف ہوجاتے ہیں:
۱۔ ذاتِ الٰہیہ ماورائے زمان و مکاں ہے
۲۔ قدمِ باری ذاتی ہے نہ کہ زمانی
۳۔ حرکت، تغیر، جہت اور حد، اپنے ہر معنی میں کمالِ ذاتی کے منافی ہیں، لہٰذا ان کا گزر صفات کے دائرے ،میں بھی محال ہے، اور یہ استحالہ عقلی بھی ہے۔
عراقی (اشنوی؟) بھی ان متفقات سے باہر تو نہیں گئے لیکن انھوں نے بات کہنے کا ایک ایسا نیم متصوفانہ نیم فلسفیانہ انداز اختیار کیا جس میں وہ اندرونی لچک موجود ہے جسے استعمال کرکے ایک صحیح المعنی قول کو بھی اُس کی مراد کے مخالف رخ پر موڑا جاسکتا ہے۔ اقبال کے لیے تنوعِ زمان و مکاں کا یہ تصور نہیں بلکہ اس کا بیان باعثِ کشش ہے، ورنہ جس نتیجے تک یہ تصور پہنچتا ہے وہ ان کے لیے قطعاً ناقابلِ قبول ہے، یعنی زمانِ الٰہیہ میں حرکت و تغیر کی نفی۔ اس سے پہلے تک کے تمام مراحل میں اقبال، عراقی کے ساتھ ہیں۔
جیسا کہ ہم اوپر کہیں اشارہ کرچکے ہیں کہ اقبال کی تمام فکری و تخیلی سرگرمیاں اُن کے تصورِ خودی کے گرد گھومتی ہیں اور خودی بھی انسانی خودی، جس کے اکثر تشکیلی عناصر Anthropomorphic ہیں۔ اقبال کا انسان روایتی انسان سے کہیں زیادہ مکمل ہے۔ وہ محض صفاتِ الٰہیہ ہی کا نہیں بلکہ ذاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے اور اس وجہ سے اپنی وجودی انفرادیت میں کسی طرح کی شرکت کو قبول نہیں کرتا، حتیٰ کہ خدا کی بھی۔ وحدت الوجود کے مقابلے میں اُن کا نظریۂ اثنینیت، عبد و معبود کے تعلق کے اخلاقی و قانونی حدود کے تحفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقی مقصود، کم از کم منطقی انتاج کی رُو سے، تألّہِ انسان اور تأنسِ الٰہ ہے۔ یہ وہ منتہا ہے جہاں وحدت الوجود نہیں پہنچ سکتا یا پہنچنا نہیں چاہتا۔ اس تک رسائی کا بس ایک راستہ تھا جو اقبال نے اختیار کیا: وجودی متوازیت۔ خدا اور انسان دو متوازی وجود ہیں جن کی موجودیت کے احوال تقریباً یکساں ہیں یعنی یہ دو مقابل ذاتیں ہیں جن کا وجودی سیاق و سباق فی الاصل مختلف نہیں ہے۔ چونکہ انسان کے موجود ہونے کی ایسی حالت تصور میں نہیں آسکتی جس میں زمان و مکاں مستقل حوالے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں لہٰذا خدا کے ساتھ اس کی مبنی بر غیریت مشابہت کے اثبات کے لیے لازم ہے کہ زمان و مکاں کو خود ذاتِ باری کے لیے بھی ثابت کردیا جائے۔ بصورتِ دیگر انسان کا وجودی استقلال، متوازیت، غیریت اور مشابہت میں سے کوئی ایک چیز بھی establish نہیں ہوسکتی۔ زمانی مکانی تنوع اور اضافیت کے نظریے میں فطری طور پر اس بات کا جواز موجود ہے کہ زمانیت اور مکانیت انسانی خودی کے الوہی جوہر سے متصادم نہیں ہیں۔ ہاں خودی کا مسبوق عن الزمان اور محدود فی المکان ہونا اس کے نقص پر دلالت کرسکتا ہے، لیکن خودی اپنے دونوں مراتب میں ازروئے ماہیت اس نقص سے پاک ہے۔
عراقی کے بیان کردہ مراتبِ زمان و مکاں میں علامہ کو یہ امکان نظر آتا ہے کہ اس کی بنیاد پر انسانی خودی کا ربانی خودی سے صادر ہونا زیادہ قابلِ فہم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے وہ عراقی کی سمتِ سفر کو درست کہتے ہیں۔ نزاع تصورِ انسان میں نہیں ہے بلکہ تصورِ خدا میں ہے۔ عراقی جب ذاتِ باری کی نسبت سے زمان کو حرکت و تغیر اور مکاں کو حدود و جہات سے عاری کرکے اُن کی ماہیت بدل دیتے ہیں تو یہ چیز اقبال کی scheme of things میں نہیں کھپتی۔ اس طرح انسانی خودی کا مستقل امتیاز maintain نہیں ہوسکتا اور مطلق خودی کو زمان و مکاں کی ہر جہت سے ماورا مان کر ایک تو مقید خودی اپنے مصدر سے محروم ہو کر وجودی استناد گنوا بیٹھتی ہے ،اور دوسرے اس طرح مقید خودی، مطلق خودی سے تقابلی امتیاز کے ساتھ مربوط ہونے کی بجائے اُس کے ضد میں ڈھل جاتی ہے جس سے خود اس کی موجودیت ہی غیر حقیقی بن کر رہ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال اُس وقت تک عراقی کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ انسان کے روحانی کمال کی تفصیل بیان کرتے ہیں، لیکن جوں ہی وہ اس کمال کو الوہی کمال کے سمندر میں قطرے کی طرح فنا ہوتے دیکھتے ہیں، اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔۔۔۔ وہ راہ جو انھوں نے پہلے سے بنا رکھی ہے۔
ذاتِ خداوندی کا اپنی تمام صفات سمیت لااوّل و لاآخر ہونا، مذہبی فکر کا بنیادی مسلّمہ اور مقدمہ ہے۔ اس کی پہلی دلالت ہی یہ ہے کہ وہ ذات لازمان و لامکاں ہے، یعنی حرکت، تغیر، تجدید وغیرہ اُس کی ماہیت میں متحقق ہیں نہ فعلیت میں۔ اس دعوے کومجروح یا کم زور کرنے والی ہر چیز بکل الوجوہ ایک انحراف ہے نہ صرف یہ کہ مذہبی فکر سے بلکہ خود نفسِ مذہب سے۔ یہی وجہ ہے اسلامی فکر و عرفان کی ساری روایت کم از کم اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ ذرا سی لچک کی بھی روادار نہیں ہے۔ اس پس منظر میں اقبال کی Reconstruction کا منصوبہ اپنی غایت کے اعتبار سے اگر کسی بڑے اعتراض کا ہدف بن سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ انھوں نے پوری اسلامی روایت جس تصورِ الوہیت پر قائم ہے، اُسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور انسان کے وجودی اور اخلاقی مرتبے کو ایک شدید شاعرانہ قوت کے ساتھ اتنا بڑھا دیا ہے کہ اس کے مقابلے میں خدا ہونا کچھ ایسا قابلِ فخر نہیں رہتا۔
بہرحال ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ حقائقِ انسانیہ کا صوفیانہ بیان اقبال کے تصورِ انسان کے لیے درکار بلندی اور پھیلائو فراہم کرتا ہے، لہٰذا وہ اس کی نتائجی کلیت کو سختی سے رد کرنے کے باوجود اسے اظہاری پہلو سے اپنے لیے کارآمد بنا لیتے ہیں، یعنی اُس کی معنوی ساخت سے سروکار رکھے بغیر اُس کے لفظی شکوہ کو اپنے مصرف میں لے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر عراقی ہی کا معاملہ لے لیں۔ عرفانی روایت کے درجۂ دوم کے spokesmen کی طرح عراقی نے علم الوجود پر تشریحی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے مسئلۂ زمان و مکاں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ انھوں نے منطقی اور مکتبی صوفیہ کے اسلوب میں زمان و مکاں کے تین بنیادی مراتب بتائے ہیں: مادّی اشیاء کا زمان و مکاں، روحانی موجودات کا زمان و مکاں اور الوہی زمان و مکاں۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وجودِ اصلی اور اُس کے تعینات کی تفصیلی تحقیق ہوجائے اور اس کے ضمن میں حقیقتِ جامعۂ انسانیہ کا بھی بیان ہوجائے جو Being اور Becoming کا برزخ ہے اور خود متعین ہونے کے باوجود ماورائے تعینات حقیقت سے واصل ہونے کی قابلیت رکھتی ہے۔ یہی قابلیت اُس کی جامعیت کی واحد دلیل ہے۔ تصوف میں فنائے ذاتی اسی قابلیت کی کار فرمائی کا نام ہے۔ اقبال اس فنائے ذاتی کو بھی قبول کرتے ہیں مگر شکستنِ تعین کے معنی میں جو حیرت انگیز طور پر ارادی ہے۔
اقبال نے چونکہ اپنے لیے مفکر کے بجائے Reconstructor کا کردار منتخب کیا ہے، اس لیے زمان و مکاں کے مسئلے پر بھی وہ پہلے سے موجود تصورات کی تراش خراش اور انھیں ایک نئی ترکیب میں ڈھالنے تک محدود رہتے ہیں، اور یہ سارا عمل اُن کے خصوصی طرزِ فکر کے تابع ہے جو اپنی بناوٹ میں رومانوی اور آدرشی ہے۔ برگساں کا حیاتیاتی دورانِ خالص، آئن اسٹائن کی طبیعیاتی مطلق اضافیت یا اضافی مطلقیت، اور ولیم جیمز کا نفسی تجربہ اور اس کے روحانی و مابعد الطبیعی محتویات - علامہ کے تصورِ زمان و مکاں کے بنیادی ترین عناصر ہیں جنھیں آپس میں جوڑنے کے لیے وہ ان کی انتاجی شکل کو محو کردیتے ہیں۔ اس طرح کی مشروط اور censored پیوند کاری ظاہر ہے کہ پہلے سے طے شدہ نتائج کے حصول ہی کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طرح کا ذہن درکار ہے جس میں تصورات شاعرانہ آمد کی طرح pharse ہوتے ہیں جنھیں اسی ذہن میں خلقی طور پر موجود معنی آفرینی کی غیر و قوفی صلاحیت ایک ایسے discource میں تبدیل کردیتی ہے جس میں جمالیات اور اخلاق یک جان ہو کر اس کی verifyability کا سوال نہیں اُٹھنے دیتے۔ اپنی functional جہت میں یہ ذہن حقیقت کی لازمی اعتباریت میں ’تجربی‘ وثوق پیدا کرنے کے لیے phenomenal کو rearrange کرکے نئی ترکیبی دلالتیں وضع کرتا ہے جو اُس کے ماقبل موضوعہ مدلولات یا بالفاظِ دیگر مفروضاتِ اوّلیہ کو واقعیت اور کلیت کا رنگ دے سکیں۔ اس ذہن سے پیدا ہونے والی فکر کو ہم نے جمالیاتی و اخلاقی اس لیے کہا ہے کہ کلیت و واقعیت کا اجتماع اگر ممکن ہے تو اسی طرح۔ کم از کم برصغیر کی حد تک مسلم روایت میں اس ذہن کا اگر واحد نہیں تو سب سے متحرک اور طاقت ور اظہار اقبال میں ہوا۔ انھیں دوسروں کے مقابلے میں ایک سہولت یہ بھی میسر تھی کہ مغربی علوم اور جدید سائنس کا تفصیلی علم رکھتے تھے اور مغرب کی شعریات سے بھی دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقف تھے۔ اس کی وجہ سے اُن کے ذہن کو اپنی فطری functioning، یعنی مظاہر کی نئی ترتیب و ترکیب کے لیے درکار خام مواد بھی کثرت سے دستیاب ہوگیا جس کے لاانتہا تنوع اور نیز قبولیت کی بنا پر انھیں کسی بھی مرحلے پر پانی کے حصول کے لیے کنواں خود نہیں کھودنا پڑا۔
اگر آدمی خود کو کہیں fix کیے بغیر اقبال کے خیالات و تصورات کا حقیقی مفہوم میں غیر جانب دارانہ مطالعہ کرسکے تو کم از کم اس نتیجے پر پہنچنے سے رک نہیں سکتا کہ اُن کا اصولِ استدلال ایک خاص انداز سے تطبیقی ہے۔ اُن کی کائنات اپنے مابعد الطبیعی پھیلائو میں بھی انسان مرکز ہے۔ اس انسان مرکزی کو تقویت پہنچانے والا ہر تصور، اپنی نظریاتی حیثیت سے قطعِ نظر اُن کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اُن کی بے پناہ تالیفی صلاحیت متضاد نظریات کو بھی اس مصرف میں لے آتی ہے۔ اُن کے فکر و تخیل کا عمل جہاں جہاں بھی مکمل ہوا، اس کی تکمیل میں بالعموم متضاد عناصر کی کار فرمائی صاف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی شخصیات کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا اقبال پر گہرا اثر ہے تو بڑی دلچسپ صورتِ حال سامنے آئے گی۔۔۔۔ لیکن یہ کام ہماری موجودہ ذمہ داری کے دائرے میں نہیں آتا، اس لیے اس طرف جانے کے بجائے سرِ دست ہم اپنی توجہ اس نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور جہاں تک ’کیوں‘ کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔
جیسے مسئلۂ زمان و مکاں میں اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ مختلف تصورات پر تبصرے کی سطح سے اوپر اُٹھ کر اقبال کا اپنا مستقل مؤقف کیا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے ذہن کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ نہایت بنیادی مباحث میں بھی یہ گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی کہ اُن پر اختیار کیا جانے والا مؤقف technically عقلی یا تجربی نہ ہو اور اس کی تشکیل کسی عارفانہ، حکیمانہ اور شاعرانہ تخیل سے ہوئی ہو۔ اس کے بعد ہی ہم یہ دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے کہ اقبال کی نظر میں حرکت و تغیر اور وجود ہم معنی ہیں اور عینِ یکدیگر۔ وجود اپنے ہر مرتبے میں فعلیت کے فرق کے ساتھ اصلاً حرکت ہی ہے جس کے من و اِلیٰ کا ظہور بعد میں ہوتا ہے، اور وہ بھی ایسی اضافیت کے ساتھ جو واجب الاثبات ہے۔ اس کی تفصیل مطلوب ہو تو پیچھے گزرنے والے حوالے دیکھ لیے جائیں۔
اقبال کے تصورِ وقت کو ایک مربوط بیان میں ڈھالنا آسان نہیں۔ اُن کا شعر اُن کے فلسفے میں اور فلسفہ شعر میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ اُن کے کسی بھی نظریے کو بیان کرتے ہوئے ایک اندرونی منتقلی کے مسلسل عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اظہار و استدلال کے ظاہری در و بست کو بھی منقلب کرتا رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اُن کے اس تصور کو نکتہ بہ نکتہ کرکے بیان کرنے کی کوشش کی جائے جس کے ذریعے سے امید ہے کہ اس مسئلے پر اقبال کے فکر و تخیل کے حاصلات کا ایک مجموعی خاکہ سا تیار ہوجائے گا:
۱۔ وجودِ حقیقی، خودی ہے۔
۲۔ خودی کی دو وجودی جہتیں ہیں:
ذاتیت اور فعلیت
۳۔ ذاتیت کے بنیادی اوصاف یہ ہیں:
وحدت، قدم، علم، آزاد ارادہ اور متصف بالصفات ہونا
۴۔ فعلیت کا بنیادی عنصر تخلیق ہے۔
۵۔ ذات اور فعل کے درمیان حرکت متحقق ہے۔
۶۔ یہ حرکت مکانی نہیں ہے بلکہ تغیرِ محض یا تغیر بلا تواتر ہے۔ یعنی اس سے کوئی وجودی اور اصلی تبدیلی عمل میں نہیں آتی بلکہ ذات کی قوۃ، فعل میں ڈھلتی ہے۔
۷۔ یہی تغیر، دورانِ محض ہے جو اصلِ زمان ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زمانِ حقیقی ہے جس کے ذریعے سے ذاتِ الٰہیہ میں پوشیدہ امکانات عمل پذیر ہوتے ہیں اور اس کے کمالات unfold
۸۔ خودی سے خودی کے صدور میں یہ پورا setup الوہی سے انسانی ہوجاتا ہے ضروری فرقِ مراتب کے ساتھ
۹۔ انسانی realm میں ہستی کا اصول چونکہ اثنینیت ہے لہٰذا یہاں زمان یا حرکتِ اصلی یاتغیرِ محض کو succession لاحق ہوجاتی ہے جو مرتبۂوحدت میں درکار نہیں تھی کیوںکہ وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا۔
۱۰۔ تاہم انسانی خودی بھی جس حرکت سے عبارت ہے وہ دورانِ محض ہی ہے۔
۱۱۔ اس لیے انسان زمانِ الٰہیہ کے معانی کو اپنے اندر دریافت کرسکتا ہے۔
۱۲۔ انسانی خودی کی فعلی تحدیدات کی وجہ سے زمانے کے بہائو پر جب اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے تو اُس کا تصورِ زمان بھی میکانکی اور جبری ہوجاتا ہے۔
۱۳۔ نتیجتاً انسانی خودی کی طرح انسانی تاریخ بھی یا تو نظر کا دھوکا بن کر رہ جاتی ہے یا تقدیر کے تابع ہوجاتی ہے۔
۱۴۔ ان تحدیدات کو جو خودی کی حقیقت سے بُعد کے نتائج ہیں، توڑنے کا ایک ہی ذریعہ ہے: حرکت و تغیر کے در تمامی مراتب حقیقی اور عینِ وجود ہونے کا وجدانی ایقان۔
۱۵۔ اسی سے وہ آزادانہ تخلیقی ارادہ بیدار ہوگا جو غلبہ و تقدمِ خودی بر زمان کے ربانی اصول کا عکاس ہے۔
۱۶۔ انسانی خودی اپنی اس حالت میں زمانے یعنی حرکت و تغیر کی کائناتی رو پر غالب آسکتی ہے کہ وہ اپنے مصدر یعنی ربانی خودی میں کار فرما از ذات تا بہ صفت یا از قوۃ تا بہ فعل حرکت کا تحقق خود اپنے اندر کرنے لگے۔
۱۷۔ یہی وہ حال ہے جو انسانی خودی کو بقائے دوام کا مستحق بناتا ہے۔
یہ ہیں علامہ کے تصورِ زمان کے وہ بنیادی نکات جس میں وہ مسلم فکر کی پوری روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک نکتہ بھی اس روایت میں موجود نہ تھا۔ اس انفرادیت کے ظاہر ہے کہ کچھ اسباب ہیں۔ اقبالیات میں ان کی تحقیق پر ابھی کوئی قا بلِ ذکر کام نہیں ہوا، شاید آئندہ کوئی صاحب ہمت فرمائیں۔
مذکورہ بالا نکات کا جو خلاصہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ خدا کے لیے بھی ثابت ہے مگر وہاں اس کا ثبوت عینی نہیں ہے، جب کہ انسانی دنیا میں وقت فاعلی انداز رکھتا ہے اور ایک مؤثر اصول کے طور پر موجود ہے۔ تاہم انسان اپنی خودی کے حقیقی پھیلائو میں زمانے کو subjectivize کرکے اُس کے ماہیتی جوہر یعنی دورانِ محض اور اخلاقی جوہر یعنی بقائے دوام کا تجربہ کرسکتا ہے اور اسے اپنی وجودی و روحانی تکمیل کا وسیلہ بنانے پر قادر ہوسکتا ہے۔
اگلی گفتگو کا موقع آیا تو ہم اقبال کی شاعری اور خطبات سے اُن کے تصورِ وقت کے ضروری اجزا کو اکٹھا کرکے ان کا تنقیدی مطالعہ کریں گے۔
حوالے اور حواشی
1
Pure time, then, as revealed by a deeper analysis of our conscious experience, is not a string of separate, reversible instants; it is anorganic whole in which the past is not left behind, but is moving along with, and operating in, the present. And the future is given to it not as lying before, yet to be traversed; it is given only in the sense that it is present in its nature as an open possibility. (page, 39-40)
2
Time regarded as destiny forms the very essence of things. As the Qur’an says: ‘God created all things and assigned to each its destiny. The destiny of a thing then is not an unrelenting fate working from without like a task master; it is the inward reach of a thing, its realizable possibilities which lie within the depths of its nature, and serially actualize themselves without any feeling of external compulsion. (page, 40)
3
If time is real, and not a mere repetition of homogeneous moments which make conscious experience a delusion, then every moment in the life of Reality is original, giving birth to what is absolutely novel and unforeseeable. ‘Everyday doth some new work employ Him, says the Qur’an. (page, 40)
4
To exist in real time is not to be bound by the fetters of serial time, but to create it from moment to moment and to be absolutely free and original in creation. (page, 40)
5
On the analogy of our conscious experience, then, the universe is a free creative movement. (page, 41)
6
A critical interpretation of the sequence of time as revealed in our selves has led us to a notion of the Ultimate Reality as pure duration in which thought, life, and purpose interpenetrate to form an organic unity. (page, 44)
7
If we regard past, present, and future as essential to time, then we picture time as a straight line, part of which we have travelled and left behind, and part lies yet untravelled before us. This is taking time, not as a living creative moment, but as a static absolute, holding the ordered multiplicity of fully- shaped cosmic events, revealed serially, like the picture of a film, to the outside observer....... Personally, I am inclined to think that time is an essential element in Reality. But real time is not serial time to which the distinction of past, present, and future is essential; it is pure duration, i.e. change without succession. (page, 46)
8
Serial change is obviously a mark of imperfection; and, if we confine ourselves to this view of change, the dificulty of reconciling Divine perfection with Divine life becomes insuperable..... The Absolute Ego, as we have seen, is the whole of Reality. He is not so situated as to take a perspective view of an alien universe; consequently, the phases of His life are wholly determined from within. Change, therefore, in the sense of a movement from an imperfect to a relatively perfect state, or vice versa, is obviously inapplicable to His life. (page, 47)
کلیاتِ اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۔ ۸۵۔۸۶