رومی : مرشد اقبال

احمد جاوید ٭جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والی بین الاقوامی اقبال کانگرس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں پڑھا گیا معرفت ، عشق اور اخلاق ہماری متصوفانہ رو...

احمد جاوید
٭جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والی بین الاقوامی اقبال کانگرس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں پڑھا گیا

معرفت ، عشق اور اخلاق ہماری متصوفانہ روایت کے عناصر ثلاثہ ہیں - اس روایت نے جو شعری دنیا تخلیق کی ہے ، مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریز اس کے قطبین ہیں - اس دنیا میں جو کچھ ہے ، انہی دو منتہائوں کے درمیان ہے - مثنوی عارفانہ اور اخلاقی شاعری کا منتہا ہے اور دیوان شمس تبریز عاشقانہ شاعری کا - ان تینوں جہتوں میں ہونے والا سارا سفر ، خواہ پہلے ہوا ہو یا بعدمیں ، رومی ہی پر تمام ہوتا ہے - وہ اس پہاڑ کی طرح ہیں جس کی ایک چڑھائی ماضی کی طرف ہے اور دوسری مستقبل کے رخ پر - اسے دونوں طرف سے سر کرنے کی کوششیں کی گئیں اور جب تک ہماری روایت میں زندگی کے آثار باقی تھے، یہ مہم جاری رہی - اب صورت حال یہ ہے کہ لفظ بڑے اور معنی چھوٹے ہو گئے ہیں - زندگی ظواہر تک اور شعور مظاہر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے - ایسے میں رومی ایسی شخصیت پر گفتگو کرنا آسان نہیں ، کیونکہ وہ فضا جس کی تشکیل حقیقت اور ظہور حقیقت کےParadox پر ہوئی ہو ، ہمارے لیے سخت نامانوس اور اجنبی ہو چکی ہے - علم کو تجربی توثیق سے مشروط کر کے اور تجربی توثیق میں بھی انفرادی امتیازات کا انکار کر کے ، اسے جس طرح ایک مطلق نوعی عموم میں تبدیل کیا جا چکا ہے ، اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں نکلا کہ مابعدالطبیعیات ، علم کے دائرے سے خارج ہو گئی ، بلکہ رفتہ رفتہ اس اخلاقی تحکم سے بھی محروم ہو چکی ہے جس نے کم از کم وہ ذہنی اور ذوقی پس منظر کسی حد تک محفوظ کر رکھا تھا جہاں چیزیں انسانی مطالبات اور تناظرات کی ان سطحوں سے بھی ہم آہنگ تھیں جو عقل و حواس کے میکانکی اور حیاتیاتی تلازم کی گرفت کو اگر بالکل ختم نہ کر سکیں ، تو بھی اسے اتنا ڈھیلا ضرور کر دیتی ہیں کہ آدمی کا دم نہ گھٹنے پائے - شے فی نفسہ کے ورائے ادراک ہونے کا دعوا بلاشبہ عملی طور پر بھی صحیح ہے اور منطقی طور پر بھی ، لیکن اس کا دائرہ اطلاق مدرکات کی اس قبیل تک محدود ہے جو کائناتی نہیں بلکہ صرف ارضی مفہوم میں زمانی - مکانی ہیں - اس کا تعلق محض انسان کی استعداد ادراک سے ہے نہ کہ نفس علم یا ماہیت علم سے - اس قضیے سے شے کی معلومیت کے حدود نہیں بلکہ شرائط کا تعین ہوتا ہے ، ورنہ وجود کی غیر محدودیت جو خود اس دعوے کی رو سے حقیقی اور واجب الاثبات ہے ، باطل ہو جائے گی - اسی لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ تحقق شے ، شعور کا فطری داعیہ ہے جس کی تکمیل کے لیے عقل کو اپنے عام اسلوب ادراک سے بلند ہو کر سلب و ایجاب اور تصور و تصدیق کے اس نظام کو قبول کرنا پڑتا ہے جس کے تحت عقل کی انتہائی غایت یعنی تیقن کی کیفیت تو وہی رہتی ہے جو حواس کی فراہم کردہ ہے ، البتہ علم ، عالم اور معلوم کی مثلث میں ، معلوم کے غالب آنے کی وجہ سے اس تیقن کا حکم بھی بدل جاتا ہے اور موضوع بھی- اب صورت اعتباری ہے اور معنی حقیقی - شعور کی یہی وہ سطح ہے جس تک رسائی حاصل کیے بغیر رومی کو سمجھنے کی ابتدائی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی ؎
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں (۱)
٭٭٭
گرہ از کار این ناکارہ وا کرد
غبار رہ گذر را کیمیا کرد
نیء آں نے نوازے پاکبازے
مرا با عشق و مستی آشنا کرد (۲)
یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اقبال کی تقریباً ساری نشو و نما رومی کے سائے میں ہوئی ہے - ان کے منارئہ عظمت کی اکثر بنیادیں رومی ہی کی ڈالی ہوئی ہیں - ایک عرصے تک میں اس خیال میں مبتلا رہا کہ اقبال کا خود کو مرید رومی کہنا محض از راہ انکسار ہے ، ان کے اس قول کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے - لیکن اب اس خام خیالی پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے- وہ ٹھیٹھ خانقاہی مفہوم میں مرید رومی ہیں - مرشد کے وفادار اور شکر گزار -
اقبال کے بیشتر بنیادی تصورات ، رومی ہی کے سمندر کی لہریں ہیں - ان دونوں میں جزو و کل کی نسبت ہے - اگر علامہ کہیں کہیں ان سے مختلف نظر آتے ہیں تو یہ فرق و اختلاف بھی وہی ہے جو جزو و کل میں ہوتا ہے - میں اس گفتگو میں ایسا ہی ایک مسئلہ اٹھائوں گا جس پر رومی نے بھی کلام کیا ہے اور اقبال نے بھی - اس کی حیثیت رومی کے ہاں ضمنی اور ثانوی ہے ، جبکہ اقبال کے ہاں مرکزی اور بنیادی - وہ مسئلہ ہے مسئلہ ’’خودی‘‘- اس مبحث میں اقبال بظاہر رومی سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں - رومی خودی کو قابل نفی بتاتے ہیں اور اقبال لائق اثبات - یہ بڑا اختلاف ہے ، بشرطیکہ علامہ بھی خودی کی وہی تعریف کرتے ہوں جو رومی کے ہاں پائی جاتی ہے- یعنی ایک جس خودی کو رد کر رہا ہے ، دوسرا اسی کو قبول کر رہا ہو تو یہ ایسا اختلاف ہو گا جس میں تطبیق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی - دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے پر ان دونوں حضرات کا موقف کیا ہے اور آیا ان کا اختلاف حقیقی ہے یا اسلوب اظہار اور جہت تفکر کے فرق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے -
ہماری فلسفیانہ اور عرفانی روایت میں انسانی خودی کا اثبات اور اس کی ماہیت کی تحقیق کبھی مابعدالطبیعی امور کے ذیل میں نہیں کی گئی ، بلکہ اس سارے عمل کو ہمیشہ طبیعیات کے دائرے میں رکھا گیا - خودی کی طبیعی اور نفسیاتی صداقت اور اس سطح پر رہتے ہوئے ، اس کے وجودی استناد کو کم از کم علمی و عقلی بنیاد پر کبھی مشکوک نہیں گردانا گیا - اگر کہیں اس کی تردید یا نفی کی گئی ہے تو اس کے پیچھے کچھ روحانی و اخلاقی تقاضے اور مابعدالطبیعی مطالبے کار فرما ہیں جن کا ہدف نفس خودی نہیں بلکہ اس کے بعض خلقی اور اکتسابی رجحانات ہیں جو اسے اپنے حقیقی حدود سے تجاوز کر کے مرکز ہستی بننے پر اکساتے ہیں ، اور اس انفعال پر ضرب لگاتے ہیں جو حقیقی انیت کا مظہر بننے کی واحد شرط ہے - اقبال کے تصور خودی کی تمام تفصیلات سے گزرنے کے بعد جو نتیجہ ہاتھ آتا ہے ، وہ خودی کی روایتی تعریف سے کوئی اصولی تصادم نہیں رکھتا - شاعرانہ مبالغے کو ، خواہ نثر میں ہو یا شعر میں ، نظر انداز کر دیا جائے تو خودی کے حقیقی ہونے پر اقبال کا استدلال روایتی نقطۂ نظر کو مسترد نہیں کرتا - تاہم مشکل یہ ہے کہ روایتی نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو اقبال بیان کرتے ہیں - انہوں نے جن خیالات کو بجاطور پر رد کیا ہے ، وہ مستند روایتی حتیٰ کہ وحدت الوجودی نقطۂ نظر کی بھی ترجمانی نہیں کرتے - مثلاً انسانی انا بلکہ وجود ہی کو اعتباری کہنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ مقید کو مطلق اور متناہی کو لا متناہی سے ممتاز رکھا جائے - اور اقبال کا منشا بھی یہی ہے - اعتبار ، حقیقت کی ضد نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم ہے جو ادراک کے زمانی مکانی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہونے کی وجہ سے حقیقت کا عین نہیں بن سکتا ، اور چونکہ حقیقت نہ تغیر کو قبول کرتی ہے نہ تحدید اور تعدّد کو ، لہٰذا اس سے یقینی نسبت رکھنے کے باوجود وہ شے جو مقید ، متغیر اور متعدد ہے ، ازروے اصطلاح حقیقی نہیں کہلائے گی ، بلکہ اعتباری اور مجازی- یہ امتیاز اگر ملحوظ نہ رہے تو کئی لا ینحل دشواریاں سر اٹھا سکتی ہیں جن کے نتیجے میں خود حقیقت ایک ایسا تصور بن کر رہ جائے گی جس کی تصدیق محال ہو ، یا پھر وہ وحدت جو اس کا وصف ذاتی ہے ، ناقابل اثبات ہو کر ایک مستقل متوازیت میں تبدیل ہو جائے گی اور حقیقت مطلق اور مقید ، قدیم اور حادث ، لا محدود اور محدود وغیرہ کے اٹل متقابلات میںیکساں معنویت ،کیفیت اور شدت کے ساتھ تقسیم ہو جائے گی - اسی مہمل اور لایعنی صورت حال سے بچنے کے لیے وہ اصول امتیاز دریافت کیا گیا جس کی دونوں اطراف Valid اور واجب الاثبات ہیں - ایک طرف حقیقت ہے اور دوسری طرف اعتبار ، حقیقت کی جہت سے یہ امتیاز وجہ عینیت ہے اور اعتبار کی جہت سے بنائے غیریت - اس طرح وحدت بھی محفوظ رہی اور کثرت بھی - اور پھر سامنے کی بات ہے کہ انائے مطلق یا ذات حق اگر واحد اور لا محدود ہے تو اس کا غیر ، کسی بھی دلیل سے حقیقی نہیں ہو سکتا - اقبال کا یہ خیال کہ انا سے انا ہی کا صدور ہوتا ہے(۳) ،اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا بد یہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حق و خلق بالذات ایک ہیں اور تخلیق اللہ کا ارادی فعل نہیں ہے بلکہ میکانکی عمل تحول ہے جس میں اس کی حیثیت معمول کی سی ہے - یقینا یہ نتیجہ اقبال کی کائنات فکر کے ایک ذرے سے بھی مناسبت نہیں رکھتا ، لیکن اس کاکیا کیا جائے کہ وحدت کی وجودی تعبیر کو رد کرنے کے لیے مفکر اقبال کو وجود کا کوئی ایسا متبادل درکار تھا جو حادث اور قدیم ، دونوں کا احاطہ کرنے والی وسعت رکھتا ہوتا کہ غیریت حقیقی اور عینیت باطل ہو جائے - یہ ضرورت شاعر اقبال کے ہاتھوں پوری ہوئی- تاہم عین ممکن ہے کہ یہ تجزیہ کوتاہی فہم کی پیداوار ہو اور خودی سے خودی کا صدور کوئی شاعرانہ تخیل نہ ہو بلکہ ربط الحادث بالقدیم کی حقیقی نوعیت کا ایک ورائے استدلال وجدانی ادراک ہو جس کی تصدیق کے لیے جن ذرائع کی ضرورت ہے ، وہ سر دست ہمیں میسر نہ ہوں - بہرحال ، اس نظریے پر وارد ہونے والا اشکال اس وقت تک ایک وزن رکھتا ہے جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا -
اقبال کے تصور خودی میں صرف دو مقامات پر روایتی تصور سے ٹکرائو نظر آتا ہے - ایک کا ذکر اوپر آ چکا ہے، دوسرا مقام وہ ہے جہاں وہ بقائے خودی کا دعویٰ کرتے ہیں(۴)-اس دعوے کی تفہیم میں بھی کئی دشواریاں ہیں - مثلاً : انسانی خودی کی بقا کے کیا وہی معنی ہیں جو ربانی خودی کی بقا کے ہیں ؟ خودی کا وجود اگر زمانی ہے تو کیا زمانیات کی ماہیت منقلب ہو سکتی ہے ؟ اور اگر ہو سکتی ہے تو اس صورت میں ان کا وقت اساس تشخص کس طرح برقرار رہے گا ؟ اور کیا انسانی خودی کی بقاے دوام سے ذات الہٰیہ کی ہمیشگی محض ایک تصور بن کر نہیں رہ جائے گی ؟
اصل میں قصہ یہ ہے کہ اقبال کے مقاصد عقلی اور علمی نہیں ہیں بلکہ عملی ، اخلاقی اور روحانی ہیں جن کے حصول کی لگن اتنی سچی اور طاقت ور ہے کہ بعض اوقات فکر و نظر کی تمام تحدیدات کو توڑ کر تمنا کو حقیقت بنا دیتی ہے - اور یہ کوئی نقص نہیں ہے ، کیونکہ عرفانی مباحث میں عقل و استدلال کا عمل دخل ایک خاص سطح تک ہی رہتا ہے ، آگے تمناہی رہنمائی کرتی ہے- البتہ عرفانی روایت چونکہ اپنی نظری بنیادیں اچھی طرح استوار کر چکی ہے ، اس لیے ابن عربی وغیرہ کے بیانات سے کوئی عقلی الجھن نہیںپیدا ہوتی- ان کی داخلی منطق کی ساری چولیں مضبوطی سے بٹھائی گئی ہیں اور کوئی جھول نہیں رہنے دیا گیا - ان کی تائید بھی آسان ہے اور تردید بھی - جبکہ علامہ کا معاملہ یہ ہے کہ ہر ذہین اور Commited مفکر کی طرح وہ بھی چند مسائل میں منفرد ہیں جن کا منطقی ڈھانچہ آ گے چل کر بننا ہے - اس وقت تک ان کی معنویت شدت اظہار اور زور تیقن پر قائم ہے - تاہم اس طرح کے مسائل کو ہمیں ان کی فکر کے مرکزی دھارے میں شامل کر کے نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس منطقی دروبست تک پہنچنا آسان ہو جائے جس کی بنیاد پر وہ نتائج قائم کرتے ہیں - عرفانی اور کلامی مباحث میں اصل اہمیت صحت انتاج کی ہوتی ہے جو فکر اقبال کا امتیازی وصف ہے - استدلالی تفصیل بھی اپنی جگہ اہم ہے مگر اس کا کردار حتمی نہیں ہوتا-
مختصر یہ کہ اقبال کا تصور خودی اپنی نتائجی جہت سے ایک تجربی صداقت اور نفسیاتی سچائی رکھتا ہے ، لیکن اس کے Metaphysical Contents ایک بڑے شاعر کے تخیل کی تخلیق ہیں -
دوسری طرف رومی کا بھی مرکزی موضوع انسان ہے ، افلاطون ، پلاٹی نس اور شنکر اچاریہ کا انسان نہیں ، بلکہ قرآن کا انسان جس کی صورت حقیقی ہے اور حقیقت بدیہی - رومی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انسان کی روحانی و اخلاقی حدود کو اتنا وسیع اور محکم کر دیا ہے کہ مابعد الطبیعی انداز نگاہ بھی اس کے احاطے سے قاصر اور اثبات پر مجبور ہے- یہ وصف اقبال کو بھی منتقل ہوا ہے ، مگر اس فرق کے ساتھ کہ بنیادی امور مثلاً خودی اور اس کی سب سے بڑی قوت یعنی عشق ، رومی کا تجربہ ہے اور اقبال کا نظریہ - رومی کے لیے معنی کوئی علامتی اور ذہنی چیز نہیں بلکہ تکمیل حال کا نام ہے کیونکہ حقیقت ،کسی عقلی اثبات کی نہیں بلکہ وجودی وابستگی کی متقاضی ہے ، اس لیے وہ فہم اور شرائط فہم کو شعور حقیقت کی ماہیت سے متصادم قرار دے کر حقارت سے رد کر دیتے ہیں- ان کا یہ رویہ اپنے اندر جیسا عارفانہ تحکم رکھتا ہے ، عقل اس کی منکر نہیں متمنی ہے - بلاشبہ غیر پیغمبرانہ لٹریچر کی پوری تاریخ میں رومی واحد شخصیت ہیں جس نے حقائق کو فلسفہ مابعد الطبیعیات ، عقل پرستی اور تجربیت کی گرفت سے نکال کر ان تک رسائی کے نئے راستے نکالے ہیں ، اور شعور کی نئی اساس دریافت کی ہے - اقبال انہی راستوں پر چلنے اور اسی اساس پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں - اس کوشش میں وہ اگر کہیں گرے بھی ہیں تو بھی ان کا رخ اپنے مرشد ہی کی طرف رہا ہے - مثلاً خودی کی بقاے دوام اور خودی سے خودی کا صدور ، علامہ سے نہیں نبھ سکا ، اب رومی کو دیکھیے کہ کس سہولت سے یہ معماحل کر دیتے ہیں :
 چہ حدیث است کجا مرگ بود عاشق را
این محال است کہ در چشمۂ حیوان میرم(۵)
٭٭٭
تو مردی و نظرت در جہان جاں نگریست
چو باز زندہ شدی زین سپس بدانی زیست(۶)
٭٭٭
چہ باشد آں مس مسکین چو کیمیا آید
کہ او فنا نشود از مسی بوصف زری
کیست دانۂ مسکین چو نو بہار آید
کہ دانگیش نگردد فنا پیء شجری(۷)
٭٭٭
اور یہ شعر تو ربانی خودی اور انسانی خودی کے تعلق کی ماہیت پر گویا حرف آخر ہے :
اے نظرت معدن ہر کیمیا
اے خود تو مشعلۂ ہر خودی(۸)
یہ ’’ خود ‘‘ کیا ہے ؟ ’’ خودی ‘‘ کا مصدر ہی تو ہے ! تاہم اس بیان میں کمال یہ ہے کہ انائے مطلق کی ورائیت (Transcendence)کو ذرا بھی مجروح کیے بغیر اسے انائے مقید کے تحقق (Realization) کی اصل بتایا گیا ہے اور ایک عارفانہ قدرت اظہار اور حسن کلام کے ساتھ ’’ خود‘‘ (Self) کو ’’ تو ‘‘ (Thou) پر زائد دکھایا گیا ہے تاکہ عینیت کا وحدت الوجودی تصور، اعتبار کی سطح پر بھی نہ پیدا ہو سکے - یہی وہ حقیقی تشبیہ و تنزیہ ہے جسے بعض وحدت الوجودیوں نے نظریۂ ٔتنزلات و تعینات میں صرف کر کے مسخ کر دیا -
رومی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ وہ وحدت الوجودی نہیں تھے - بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ وحدت الوجود کی چٹان جس ہتھوڑے سے ٹوٹ سکتی ہے ، وہ یا تو رومی کے پاس ہے یا مجدد الف ثانی ؒکے پاس -یہ دونوں حضرات ہماری وہ تمام عرفانی ضروریات زیادہ محفوظ طریقے سے پوری کرتے ہیں جنہیں وحدت الوجود ابھار تو دیتا ہے مگر ان کی تکمیل کی وہ ضمانت نہیں دیتا جو دینی اور ایمانی شعور کے لیے بھی قابل تسلیم ہو - مثال کے طور پر انسانی خودی ، ابن عربی وغیرہ کے موقف کی روشنی میں ، دو حوالے رکھتی ہے : ثبوت اور عین - ثبوت کو حوالہ بنائیں تو یہ قابل اثبات تو ہے مگر موجود نہیں ہے ، اور عین کے حوالے سے یہ ثابت ہے نہ موجود- جن لوگوں نے دبستان ابن عربی کے فرفریوس(Porphyre) ، دائود قیصری کا ’’ مقدمۂ فصوص ‘‘ جو دراصل ایسا غوجی (Isagoge) ہی کا دوسرا روپ ہے ، پڑھ رکھا ہے ، وہ ثبوت اور عین کا مطلب یقینا سمجھتے ہوں گے ، لیکن جنہیں یہ موقع نہیں ملا ، ان کے لیے عرض ہے کہ مخلوقات کا وجود علم الٰہی میں ثبوت کہلاتا ہے اور عالم خارجی میں عین - خودی ، مرتبہ ثبوت میں حقیقی ہے لیکن انسانی نہیں اور مرتبہ عین میں انسانی تو ہے ، حقیقی نہیں ہے - یہ ہے وحدت الوجودیوں کا پورا موقف - رومی ، سلب ایجاب کی اس منطقی بازی گری کی طرف التفات نہیں کرتے - ان کے ہاں خودی کی دو جہتیں ہیں : ذاتی اور وصفی- ذاتی کا اثبات ضروری ہے اور وصفی کی نفی - بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ خودی کی ذاتی جہت کے اثبات کے لیے اس کی وصفی جہت کی نفی لازمی ہے - اس اصول کی تفصیل میں جانا تو موجب طوالت ہوگا ، سردست ایک اجمالی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں - خودی کی اولین Manifestation ’’انا الموجود ‘‘ ہے - یہ ایسا دعویٰ ہے جس کی دلیل اسی میں گندھی ہوئی ہے - یہ وہ حقیقت ہے جس کے اثبات میں کیا جانے والا ہر استدلال اسے اجاگر کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈال دے گا- تاہم اتنی عظیم الشان بداہت کے باوجود ،خودی کا یہ ظہور اول اندر سے دولخت ہے- اس میں ’’انا‘‘ خودی کا ذاتی تعین ہے اور ’’ موجود ‘‘ وصفی - دائرئہ ظہور میں خودی کا کوئی درجہ اور وجود کا کوئی مرتبہ ایسا نہیں جو اس دولختی سے خالی ہو ، کیونکہ اس کے بغیر خود ظہور ہی محال ہے - حقیقت پر جب تک کوئی چیز زائد نہ ہو ، اس کا اظہار نا ممکن ہے ، بقول نظیری      ؎
مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسد
حقیقت یا ذات یا خودی پر ہونے والا یہ اضافہ ، ظاہر ہے کہ خود حقیقی نہیں ہے ، لیکن خودی کا ہر انکشاف ،خواہ ذہنی ہو یا خارجی ، ربانی ہو یا انسانی ، اسی پر مدار رکھتا ہے - انسانی صورت حال میں بھی خودی ’’ میں ہوں ‘‘  کا جو ذہنی اور تجربی پیکر تشکیل دیتی ہے ، اس کی زیادہ سے زیادہ حیثیت دلالت التزامی کی ہے جو اپنے مدلول کے ساتھ کامل پیوستگی رکھنے کے باوجود اس کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہے - ’’ہونا‘‘ میری انا کے بے شمار احوال میں سے ایک حال ہے جو زمان و مکاں کی موجودہ بناوٹ سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ہستی کے ایک عمومی اسلوب کے طور پر ظاہر ہوا ہے - انسانی خودی کی Actual Realization کے لیے یہ اسلوب نا کافی ہی نہیں بلکہ رکاوٹ بھی ہے ، جس کا ازالہ کیے بغیر خودی کی ماہیت کا صحیح تصور قائم نہیں کیا جا سکتا - خودی ، وجود کی رسی پر پڑنے والی گرہ یا اس کے دریا کی سطح پر بننے والا کوئی بلبلا نہیں ہے کہ اس کی حیثیت ہستی کے بہائو میں ایک عارضی توقف اور مستقل عموم میں ایک اضافی تشخص کی سی ہو- وجود کو مادہ اور خودی کو صورت مان کر انسان کی حیاتیاتی تعبیر تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کا فصل حقیقی یعنی ذاتی امتیاز ثابت نہیں کیا جا سکتا - اگر ہم یہاں سے چلیں کہ امتیاز ، ذاتی امر ہے اور اشتراک،وصفی --- تو ہمیں پہلے ہی قدم پر خودی اور وجود کی اس تقابلی نسبت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا کائناتی مظہر انسان ہے - اسے گرفت میں لائے بغیر انسان کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا - جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تقابلی نسبت وہ اصول ہے جو دو امور کو ایک دوسرے سے منقطع ہونے دیتا ہے نہ ایک دوسرے میں مدغم - انسانی دائرے میں بھی خودی اور وجود میں معنی وصورت ، جو ہر و عرض اور ماہیت و وصف کی نسبت کار فرما ہے - یہ اصالت و اضافت کے مظاہر ہیں - اضافت کا سلب ہو یا ایجاب ، اصالت اپنی جگہ رہتی ہے - ’’میں ہوں کیونکہ میں نہیں ہوں‘‘ اور ’’میں نہیں ہوں کیوں میںہوں‘‘ یہ ہے وہ Paradox Pattern جس کا ذکرتمہید میں آیا تھا - اسی میں انسانی خودی کی حقیقت کہیں پوشیدہ ہے   ؎
خویش را صافی کن از اوصاف خویش
تا ببینی ذات پاک صاف خویش(۹)
 خودی کو اس کے اوصاف سے پاک کرنے کا یہ مطالبہ عاشقانہ بھی ہے اور عارفانہ بھی- اس مطالبے کی تکمیل کا ذریعہ بھی دونوں میں مشترک ہے : خودی کے غیر زمانی عنصر کو اس کے زمانی عناصر پر کلیتہً غالب کر دینا یا بالفاظ دیگر اس کی اصالت یعنی ذاتیت کو اضافت یعنی وجودیت سے ممتاز کر دینا  - اقبال نے وجود کو ’ جوہر خودی کی نمود ‘(۱۰) کہا ہے ، جس کے تجربے کا آخری مرحلہ جوہر اور اس کی نمود کے اتحاد نہیں ، امتیاز پر تمام ہو گا- لیکن یہ امتیاز حقیقت خودی کی طرف اشارہ تو کرتا ہے ، اس کا احاطہ نہیں کرتا - اقبال چونکہ خودی کے تاریخی اور اخلاقی امکانات کو ایک تقدیر ی آہنگ اور تسخیری قوت میں ڈھال کر بروئے کار لانا چاہتے ہیں، لہٰذا انہیں مابعدالطبیعی اور Ontological رنگ اور لہجہ اختیار کرنا پڑا تاکہ زندگی کے تاریخی حدود اور نفس کی اخلاقی استعداد کی کم بضاعتی کا سوال اٹھنے ہی نہ دیا جائے - رومی ، خودی کے تاریخی کردار سے دلچسپی نہیں رکھتے البتہ اس کے اخلاقی امکانات کی تکمیل ان کا بڑا مسئلہ ہے - اس لیے وہ جس چیز کی نفی پر زور دیتے ہیں ، وہ خودی کا وصفی تعین ہے جو اس کی ذاتی وسعت کو بالکل سکیڑ دیتا ہے اور اس نسبت کو بھی اوجھل کر دیتا ہے جو اسے مطلق خودی کے ساتھ ہے - خودی کے تمام تر اخلاقی امکانات اور ان کی تکمیل کے جملہ وسائل ، اسی نسبت پر منحصر ہیں - یہ نسبت نہ ہو تو اخلاق ایک بے معنی لفظ ہے - رومی اور اقبال ، دونوں کی نظر میں خودی کا اخلاقی کمال اس کے ذاتی انفعال کی Actualization یعنی عشق سے مشروط ہے - تاہم اقبال ، عشق کی بیشتر قوت عاشق کا قد بڑھانے میں صرف کر دیتے ہیں - ان کا عشق کہیں کہیں محبوب سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے ؛ جبکہ رومی کا عشق محبوب مرکز ہے ، مگر عاشق کو بھی ایک حسب مراتب توازن کے ساتھ ملحوظ رکھتا ہے - اقبال اور رومی کا یہ فرق مخالفانہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے - یہ وہی فرق ہے جو نظریہ و حال ، علم و عین اور جزو و کل میں ہوتا ہے - رومی عشق کے داعیہ فنا اور اخلاق کے تقاضائے بقا کو نہ صرف یہ کہ باہم متصادم نہیں ہونے دیتے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیتے ہیں - اور یہ ایک تقریباً نا ممکن کام تھا جسے انہوں نے اس خوبی سے سر انجام دیا کہ خودی کے تمام داخلی و خارجی مراتب میں وصل و فصل کا وہ مستقل ضابطہ قائم ہو گیا جس کے بغیر توحید یعنی وحدت حقیقی جو ہستی کا اصل الاصول ہے ، متحقق نہیں ہو سکتی - اس وحدت حقیقی کی اکثر تعبیرات میں انسانی خودی کے اس تعین کو جو زمانیت اور تغیر سے محفوظ ہے یا تو رد کر دیا گیا یا پھر ربانی خودی میں کھپا دیا گیا - توحید کا صوفیانہ ورژن زیادہ تر اسی رویے کا آئینہ دار ہے - اس روایت میں رومی غالباً پہلے آدمی ہیں جنہوں نے صوفیہ کی ایک بڑی جماعت کی طرف سے پھیلائی گئی اس غلطی کی تصحیح کی اور وحدت حقیقی کے اثبات کے لیے وہ راہیں کھولیں جن پر چل کر متصوفانہ استدلال بھی کمال کو پہنچ گیا اور احوال بھی - ’’ مثنوی ‘‘ کے دفتر پنجم میں ایک مقام پر مولانا فرماتے ہیں     ؎


گفت معشوقے بعاشق ز امتحاں
در صبوحی کاے فلاں ابن فلاں
مر مرا تو دوست تر داری عجب
یا کہ خود را راست گو یا ذا الکرب ؟
گفت من در توچناں فانی شدم
کہ پرم از تو ز ساراں تا قدم
ہمچو سنگے کو شود کل لعل ناب
پر شود او از صفات آفتاب
بعد ازاں گر دوست دارد خویش را
دوستی خور بود آں اے فتا
ور کہ خود را دوست دارد او بجاں
دوستی خویش باشد بے گماں
اندریں دو دوستی خود فرق نیست
ہر دو جانب جز ضیاے شرق نیست
تا نشد او لعل خود را دشمن است
زانکہ یک من نیست آنجا دو من است(۱۱)
یہ ہے وہ پورا منظر نامہ جہاں انسانی خودی ، مطلق خودی سے وہ نسبت پیدا کرتی ہے جو تحقق کی سطح پر ان کی دوئی کو محفوظ رکھتی ہے اور اثبات کی سطح پر انہیں ایک کر دیتی ہے - یہاں وجو د بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور وحدت الوجود بھی -
حواشی
۱ -    بال جبریل ، کلیات اقبال (اردو) اکادمی ایڈیشن ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۹۰ء ص ۴۰؍۳۶۴-
۲ -    ارمغان حجاز ، کلیات اقبال (فارسی) ص ۶۶؍ ۸۱۸ -
    ترجمہ : ’’ رومی نے اس ناکارہ کا کام بنا دیا
        راستے کی مٹی کو کیمیا بنا دیا
        اس پاک باز نے نواز کی تان نے
        مجھے عشق و مستی سے آشنا کر دیا‘‘
۳ -     I "have Conceived the Ultimate Reality as an Ego: and I must add  now that from the Ultimate Ego only egos Proceed."
    "The Conception of God and the Meaning of Prayer (Lec III) ,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal, Edited and annotated by M.Saeed Sheikh. Iqbal Academy Pakistan/Institute of Islamic Culture , Lahore , 1989, P.57.
۴-    اس موضوع پر اقبال کے تفصیلی موقف کے لیے دیکھیے Reconstruction.... کا چوتھاخطبہ :  Freedom and Immortality"  The Human Ego His "
۵-    کلیات شمس یا دیوان کبیر ’’ رومی [ کوئی بھی نسخہ] شعر ۱۷۱۶۹ -
    ترجمہ : ’’ کیا خوب قول ہے کہ عاشق کو موت کہاں !
        یہ محال ہے کہ میں آب حیات کے چشمے میں ڈوب کر مر جائوں ‘‘
۶ -    کلیات شمس شعر ۵۲۳۵ -
    ترجمہ :  ’’ تو مر گیا اور تیری نگاہ نے روح کی دنیا کا مشاہدہ کیا
        جب تو دوبارہ زندہ ہوا تو پھر تو نے جانا کہ کیسے جیا جاتا ہے ‘‘
۷ -     کلیات شمس شعر ۲ - ۳۲۷۰۱ -
    ترجمہ : ’’  جب کیمیا آ جائے تو بچارے تانبے کی کیا حیثیت ہے
        کہ وہ تانبا پن چھوڑ کر سونا نہ بن جائے
        جب بہار سارے میں چھا جائے تو بچارے دانے کیا ہستی ہے
        کہ اس کا دانہ پن ، شجر بننے کے لییے فنا نہ ہو جائے ‘‘
۸ -    کلیات شمس شعر ۳۶۳۲۸ -
    ترجمہ:  ’’ اے کہ تیری نظر ہر کیمیا کی کان ہے
        اے کہ خود تو ہر خودی کی مشعل ہے ‘‘
۹ -    مثنوی معنوی رومی [ کوئی بھی نسخہ] دفتر اول شعر ۳۴۶۰ -
        ترجمہ ’’ خود کو اپنے اوصاف سے پاک کر لے تاکہ اپنی پاک اور اجلی ذات کا مشاہدہ میسر آ جائے
۱۰ -      کلیات اقبال ، ’’ ضرب کلیم ‘‘،’’ افرنگ زدہ ‘‘ ، ص ۴۶؍۵۴۶-
۱۱ -    مثنوی معنوی دفتر پنجم ، شعر ۲۲ - ۲۰۲۰، ۲۰۲۵، ۲۸-۲۰۲۷،۳۱ -۲۰۳۰ -
    ترجمہ ’’ ایک معشوق نے صبح ہوئی تو عاشق کو آزمانے کے لیے پوچھا : اے فلاں بن فلاں ! اے دکھ درد کے مارے ! سچ سچ بتا کہ تو مجھے زیادہ محبوب رکھتا ہے یا خود کو ؟ ‘‘ عاشق نے کہا : ’’ میں تجھ میں اس طرح فنا ہو چکا ہوں کہ سر سے پائوں تک تجھی سے بھرا ہوا ہوں جیسے پتھر جب کھرا یاقوت بن جاتا ہے تو سورج کی صفات سے معمور ہو جاتا ہے - اب اگر وہ خود کو دوست رکھتا ہے تو سورج ہی کو دوست رکھتا ہے ، اور اگر سورج کو دل و جان سے محبوب رکھتا ہے تو بلاشبہ اپنے آپ سے ہی محبت کا حق ادا کرتا ہے - ان دونوں دوستیوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں ایک ہی نور سے روشن ہیں- جب تک پتھر یا قوت نہیں بنتا ’ اپنا دشمن ہے ‘ کیونکہ اس میں ایک ’’ میں ‘‘ نہیں بلکہ دو ’ میں‘‘ہیں‘‘ -

Related

اقبالیات 814794029613617385

Post a Comment

emo-but-icon

Follow Us

Hot in week

Recent

Featured

Comments

[Iqbal Predictions][slider][#fc0000]

Connect Us

item